سوال:
السلام علیکم! میری بہن کا ایک مسئلہ ہے کہ وہ ایک بیوہ خاتون ہیں، جو جاب بھی کرتی ہیں اور ان کی ایک چودہ 14 سال کی بیٹی بھی ہے، ان سے ایک شخص شادی کرنا چاہتا ہے، جو خود بھی شادی شدہ ہے، تین بچے ہیں اور میری بہن سے عمر میں بھی چھوٹا ہے۔
میری بہن چاہتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کی رضا مندی کے ساتھ شادی کرے، میری بہن کی خواہش کے مطابق اس نے اپنی بیوی سے بات کی، لیکن معاملات بہت خراب ہوگئے، اس کی بیوی اور والدین کے درمیان جھگڑا ہوگیا ہے، مگر وہ لڑکا میری بہن سے شادی کرنے میں بضد ہے اور کہتا ہے کہ آپ کے گھر میں نکاح کر لیتے ہیں، لیکن میری والدہ اس طرح نکاح کرانے پر راضی نہیں ہے، تو وہ کہتا ہے کہ ہم مسجد میں نکاح کرلیں گے، پر میری بہن اس طرح سے نکاح کرنے پر راضی نہیں ہے، کیونکہ ان کی بیٹی کے مستقبل کا سوال ہے۔
اس سلسلے میں شریعت ہمیں کیا حکم دیتی ہے، رہنمائی فرمادیں۔ شکریہ
جواب: واضح رہے کہ نکاح کا مقصد دو خاندانوں کے درمیان محبت و الفت کا تعلق قائم کرنا ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ والدین کی رضامندی سے نکاح کیا جائے، تاہم اگر والدین راضی نہ ہوں، اور لڑکا لڑکی شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیتے ہیں، تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔
لیکن اگر یہ نکاح کفو میں نہیں ہوا، تو ایسا نکاح شرعا منعقد ہو جاتا ہے، البتہ اولاد ہونے سے پہلے پہلے تک لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (347/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض.
الھندیۃ: (292/1، ط: دار الفکر)
ثم المرأ ۃ اذا زوجت نفسھا من غیر کفوء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخرا وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض وروى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أن النكاح لا ينعقد وبه أخذ كثير من مشايخنا رحمهم الله تعالى، كذا في المحيط والمختار في زماننا للفتوى رواية الحسن وقال الشيخ الإمام شمس الأئمة السرخسي رواية الحسن أقرب إلى الاحتياط، كذا في فتاوى قاضي خان في فصل شرائط النكاح وفي البزازية ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكرا كانت أو ثيبا على قول الإمام الأعظم وهذا إذا كان لها ولي فإن لم يكن صح النكاح اتفاقا، كذا في النهر الفائق ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی