سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے وعدہ کرے کہ میں اپنی آخری سانس تک تم سے محبت کروں گا، تمہیں اپنے دل میں رکہوں گا، پھر اس کے بعد دونوں میں طلاق یا خلع ہو جاتی ہے، تو کیا اب بھی اس شوہر کو وہ وعدہ نبھانا ہوگا، اب بھی وہ اس سے محبت کرتا رہے اور اس کو دل میں بسائے رکھے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر میاں بیوی نے خلع یا طلاق کے بعد آپس میں دوبارہ نکاح یا رجوع نہ کیا ہو، تو یہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوگئے ہیں، اور کسی اجنبی مرد کے لیے کسی اجنبی عورت کو دل میں بسانا یا اس سے محبت کا تعلق رکھنا جائز نہیں ہے۔
لہذا شوہر کے ذمہ نکاح کی حالت میں کیا ہوا وعدہ اب پورا کرنا لازم نہیں رہا، کیونکہ اس وعدے کے پورا کرنے میں گناہ کا ارتکاب لازم آتا ہے، اور ہر وہ وعدہ جس کے پورا کرنے میں گناہ کا ارتکاب لازم آتا ہو، اس کا پورا کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (فصل في احكام العدة، 204/3، ط: دار الكتب العلمية)
ومنها انه لايجوز للأجنبي خطبة المعتدة صريحا سواء كانت مطلقة أو متوفي عنها زوجها اما المطلقة طلاقا
رجعيا فلانها زوجة المطلق لقيام ملك النكاح من كل وجه فلايجوز خطبتها كما لايجوز قبل الطلاق.
فقه البيوع: (حكم الوعد أو المواعدة في البيع، 79/1، ط: مكتبة معارف القرآن)
وكذلك يوجد عند الحنفية نصوص تدل على لزوم الوعد، وكون الوفاء به واجب على الواعد. فقال الإمام أبو بكر الجصاص رحمه الله في تفسير قوله تعالى: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ [الصف: ۲]
يحتج به في أن كل من ألزم نفسه عبادة، أو قربة، وأوجب على نفسه عقدا، لزمه الوفاء به؛ إذ ترك الوفاء به يوجب أن يكون قائلا ما لايفعل، وقد ذم الله فاعل ذلك. وهذا فيما لم يكن معصية، فأما المعصية،فإن إيجابها في القول لا يلزمه الوفاء بها، وقال النبي : «لا نذر في معصية، وكفارته كفارة يمين» وإنما يلزم ذلك فيما عقده على نفسه مما يتقرب به إلى الله، ومثل: النذور، وفي حقوق الآدميين، العقود التي
يتعاقدونها.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی