سوال:
مفتی صاحب! 1983 میں دادا کے انتقال کے وقت ورثاء میں بیوی، چار بیٹے (بشمول میرے والد)، دو بیٹیاں حیات تھیں، دادا کی ملکیت میں دو منزلہ ایک گھر تھا، جو دادا کے انتقال کے بعد سب ورثاء کی رضامندی سے دادی کے نام کردیا گیا تھا۔
والد صاحب کے انتقال کے بعد 1995 میں ایک بیٹے (میرے والد) کا انتقال ہوگیا تھا، ورثاء میں والدہ، بیوی، ایک بیٹی اور تین بیٹے موجود تھے۔
والد صاحب کی وفات کے بعد 2007 میں دادی کا بھی انتقال ہوگیا، دادی کے انتقال کے وقت ورثاء میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں حیات تھیں۔
پھر 2009 میں ایک پھوپھی کا بھی انتقال ہوگیا۔
(1) معلوم یہ کرنا ہے کہ گھر (جو دادا کی ملکیت تھا اور ان کی وفات کے بعد دادی کے نام کردیا تھا) کی تقسیم کیسے ہوگی؟
(2) میرے والد جو دادا کی کی وفات کے وقت حیات تھے، اب اس گھر میں میرے والد صاحب کا حصہ ہے یا نہیں؟ اگر حصہ ہے تو کتنا ہوگا اور اس کی تقسیم کیسے ہوگی؟ والد صاحب کے ورثاء میں دادی کے علاوہ سب حیات ہیں۔
(3) دادا کی ملکیت کو ان کے انتقال کے وقت تقسیم نہیں کیا گیا تھا، بلکہ دادی کے نام کردیا گیا تھا، تو اب یہ گھر دادا کی ملکیت سمجھ کر تقسیم کیا جائے گا یا دادی کی ملکیت سمجھ کر تقسیم کیا جائے گا؟
جواب: واضح رہے اگر مرحوم دادا کے انتقال کے بعد مرحوم کے شرعی ورثاء نے مکان صرف مرحوم کی بیوی (آپ کی دادی) کے نام کیا ہو، اور مالکانہ تصرف اور قبضہ نہیں دیا ہو، تو وہ مکان بدستور مرحوم دادا کی ملکیت شمار ہوگا، اور دادا کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء (بشمول آپ کے والد مرحوم) میں شریعت کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا، بصورت دیگر یہ مکان دادی کی ملکیت شمار ہوگا اور دادی کے شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
چونکہ آپ کے والد کا انتقال اپنی والدہ (آپ کی دادی) سے پہلے ہوا ہے، لہذا والدہ کی ملکیت اور قبضہ کی صورت میں آپ کے والد کو اس مکان سے کچھ حصہ نہیں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (689/5، ط: سعید)
"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"۔
الھندیة: (378/4، ط: رشیدیة)
"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".
رد المحتار: (758/6، ط: دار الفکر)
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی