سوال:
میرے شوہر نے مجھ سے پہلی بیوی سے چھپ کر دوسری شادی کی تھی، جب ان کی پہلی بیوی کو معلوم ہوا، تو جب سے مجھ سے نہیں ملتے اور نہ ہی طلاق دے رہے ہیں اور نہ ہی خرچہ وغیرہ، میں دو سال سے اپنی والدہ کے گھر میں ہوں، میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیا ایسے شوہر پر کوئی گناہ ہوگا، جو نہ خرچہ دے رہا ہو، اور نہ ہی طلاق دے رہا ہو؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ شوہر کے ساتھ خلع کا معاملہ کرسکتی ہیں، اور اگر شوہر اس کے لئے بھی راضی نہ ہو، تو آپ عدالت سے رجوع کرکے فسخ نکاح کے لئے درخواست دے سکتی ہیں، جہاں شرعی شہادتوں کے ذریعے عورت کا دعویٰ ثابت ہونے کے بعد جج دونوں کے درمیان تفریق کرادیگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 229)
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَo
الدر المختار: (441/3، ط: دار الفکر)
وأما ركنه فهو كما فی البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".
الدر المختار: (باب النفقہ، 902/3، ط: سعید)
( والنفقة لا تصير دينا الا بالقضاء او الرضا ) اى اصطلا حهما على قدر معين اصنافاً او دراهم فقبل ذلك لا يلزمه شنی وبعده ترجع بما انفقت الخ
رد المحتار: (باب النفقہ، 902/3، ط: سعید)
( قوله وبعده ) اى وسعد القضاء والرضا ترجع لانها بعده صارت ملكا لها كما قد مناه ولذا قال في الخانية لو اكلت من مالها او من المسئلة لها الرجوع بالمفروض اء وكذا لو تراضيا على شيئي ثم مضت مدة ترجع بها ولا نسقط ....الخ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی