سوال:
میرے شوہر نے کسی کے سامنے کہا کہ بیوی دعوی تنسیخ کے ذریعے طلاق لے چکی ہے، اب اس سے میرا کوئی واسطہ اور تعلق نہیں رہا ہے، اور ایک جگہ یہ کہا کہ اس نے مجھ سے طلاق تنسیخ کا دعوی دائر کیا، تو کیا یہ طلاق کا اقرار ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ عدالت کو میاں بیوى کے درمیان نکاح فسخ کرنے کا اختیار مخصوص شرائط کے ساتھ ہوتا ہے، مثلاً: شوہرنا مرد ہو، یا مجنون، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو، یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کو نان نفقہ نہ دیتا ہو، ان وجوہات میں سے کسى ایک وجہ کو اگر عورت عدالت کے سامنے شرعی گواہوں کے ذریعے ثابت کر دے، اور عدالت شوہر کا موقف بھی سنے اور پوری تحقیق کر کے اگر تنسیخِ نکاح کا فیصلہ کرتى ہے، تو وہ فیصلہ شرعاً معتبر مانا جائے گا، اور اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگى، لیکن اگر عدالت مذکورہ بالا شرائط کا خیال نہیں رکھتى ہے، یا شوہر کے موقف کی تحقیق کے بغیر یک طرفہ طور پر تنسیخِ نکاح کا فیصلہ دیتى ہے، تو شرعا ایسا فیصلہ معتبر نہیں ہوگا اور وہ عورت بدستور شوہر کے نکاح میں رہے گی۔ نیز عموما عدالت کے تنسیخِ نکاح کے فیصلوں میں مذکورہ بالا شرائط کا خیال نہیں کیا جاتا ہے۔
چونکہ ہمارے سامنے مذکورہ مسئلہ میں عدالت کے فیصلے کى تفصیلات موجود نہیں ہیں، اس لیے عدالتى تنسیخ نکاح کے فیصلے کے متعلق اصولى جواب لکھا گیا ہے۔
جہاں تک شوہر کا یہ کہنا "اس سے میرا کوئی واسطہ اور تعلق نہیں رہا ہے" اگر ان الفاظ سے اس کى طلاق کی نیت تھی، تو ایک طلاق بائن واقع ہوگئى اور اگر ان الفاظ سے طلاق کی نیت نہیں تھی، تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور وہ عورت بدستور اس کے نکاح میں رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق، 2/1، ط: دار الفكر)
"لو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی