سوال:
مفتی صاحب ! چار سالوں سے میرے شوہر مجھ سے منہ سے بات نہیں کرتے، اگر ان سے میسیج پر پوچھو کہ مجھے طلاق دے دی ہے؟ تو کہتے ہیں کہ دے چکا ہوں، لیکن کاغذ مانگو، تو کاغذ نہیں دیتے، جس کی وجہ سے بہت پریشانی ہے، کہیں میرے دوسرے رشتہ کی بات چلے، تو وہ طلاق نامہ مانگتے ہیں، آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھ پر طلاق واقع ہوگئی ہے اور میں کسی دوسری جگہ شادی کر سکتی ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ مفتی عالم الغیب نہیں ہوتا، بلکہ وہ سوال میں سائل کی طرف سے دی گئی معلومات کے مطابق جواب دیتا ہے، لہذا سوال میں بیان کردہ تفصیلات کے سچا یا خلافِ واقع ہونے کی ذمہ داری سوال پوچھنے والے پر ہوتی ہے۔
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کے شوہر کا طلاق کے بارے میں سوال کے جواب میں "دے چکا ہوں" کہنے سے آپ پر ایک طلاق رجعی واقع ہو گئی ہے، لہذا آپ عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہیں، آپ کی عدت تب سے شروع ہوگئی تھی، جب آپ کے شوہر نے آپ کو طلاق دی تھی، لہذا اگر اس کے بعد تین ماہواریوں کا زمانہ گزر چکا ہو، تو آپ کی عدت گزر چکی ہے، البتہ اس بارے میں شوہر سے معلوم کر لیا جائے کہ انہوں نے کتنا عرصہ قبل آپ کو طلاق دی ہے، پھر اس کے مطابق عدت کا حساب کر لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (264/3، ط: دار الکتاب الاسلامی)
"ولو أقر بالطلاق وهو كاذب وقع في القضاء ۔۔۔۔إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة".
المبسوط للسرخسی: (133/6، ط: دار المعرفہ، بیروت)
"أن من أقر بطلاق سابق یکون ذٰلک إیقاعا منہ في الحال؛ لأن من ضرورۃ الاستناد الوقوع في الحال، وہو مالک للإیقاع غیر مالک للاستناد".
الھندیۃ: (الفصل الأول في الطلاق الصريح، 355/1، ط: دار الفکر)
"ولو قال لامرأته أنت طالق فقال له رجل ما قلت فقال طلقتها أو قال قلت هي طالق فهي واحدة في القضاء كذا في البدائع".
کذا فی فتاوی دار العلوم دیوبند: رقم الفتوی: 192=182-2/1432
و کذا فیھا ایضاً: Fatwa:608-436/sn=7/1442
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی