سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میری نانی تین مہینے سے بیمار تھیں، اس دوران طبیعت کبھی تھوڑی بہتر ہوجاتی اور کبھی بگڑ جاتی، اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا، انہوں نے اسی دوران اپنے دو گھر میرے نانا کو ہبہ کر دیے کہ یہ میں نے آپ کو دیے، اس میں جو کرنا ہے وہ آپ کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہبہ تصور ہوگا یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ مرض الموت میں کسی کو کوئی چیز ہبہ (Gift) کرنا وصیت کے حکم میں ہوتا ہے، نیز شریعت مطہرہ نے ہر وارث کا شرعی حصہ متعین کردیا ہے، وارث کے لئے کی گئی وصیت دیگر ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے، ان کی اجازت کے بغیر نافذ نہیں ہوتی۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں مرحومہ نے اگر واقعتاً مرض الموت میں اپنے دونوں گھر اپنے شوہر کو ہبہ کیے ہوں تو یہ ہبہ دیگر ورثاء کی رضامندی کے بغیر شرعاً معتبر نہیں ہوگا، اور دونوں گھر مرحومہ کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: (337/7، ط:دارالکتب العلمیة)
وكذلك الهبة في المرض بأن وهب المريض لوارثه شيئا، ثم مات إنه يعتبر كونه وارثا له وقت الموت لا وقت الهبة؛ لأن هبة المريض في معنى الوصية حتى تعتبر من الثلث.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي: (182/6، ط:المطبعة الكبرى الأميرية، القاهرة)
قال رحمه الله ( ولا تصح بما زاد على الثلث ولا لقاتله ووارثه إن لم تجز الورثة)۔۔۔۔
وأما الثالث فلقوله عليه الصلاة والسلام «إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث»، ولأن البعض يتأذى بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم.۔۔۔
والهبة والصدقة من المريض لوارثه في هذا نظير الوصية ؛ لأنه وصية حكما حتى يعتبر من الثلث.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی