عنوان: گھر سے بھاگ کر اولیاء کی رضامندی کے بغیر نکاح کا حکم(9118-No)

سوال: سوال یہ ہے کہ لڑکا لڑکی چھپ کر نکاح کرتے ہیں، لڑکی کے والدین کی مرضی نہیں ہے اور لڑکے کے گھر والے راضی ہیں، تو وہ دونوں بھاگ کر نکاح کرتے ہیں۔
لڑکی بہت ایجوکیٹ ہے، والد بزنس مین، گھر کروڑوں کا ہے، بہت خوبصورت بھی ہے، اور لڑکی شوق سے جاب بھی کرتی تھی، بیس ہزار سیلری تھی، جو اسی کے پاس آتے تھے، اس کا اپنا بینک اکاؤنٹ بھی تھا۔
جب شادی ہوگئی تو لڑکے کے پاس کچھ بھی نہیں نکلا، نہ اس،کی جاب تھی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی اپنی ذاتی بائیک تھی، گھر بھی رینٹ کا تھا، جس میں قبضہ کر کے رہ رہے تھے، مالک مکان نے پولیس کی مدد لے کر وہ گھر بھی خالی کروانے کے در پے تھا۔
لڑکی نے اپنے ذاتی پیسوں سے لڑکے کو بائیک دلوائی، موبائل دلوایا اور پولیس کے معاملات ختم کرنے کے لیے اپنے زیور بھی بیچ دیئے۔
لڑکی کو یہ سب شادی کے بعد پتہ چلا، اس شخص نے لڑکی کو بھی دھوکہ دیا، لڑکی کے والدین تو پہلے سے ہی اس رشتہ سے راضی نہیں تھے۔
اب بچے ہوگئے، لڑکی نے بھی compromise کرلیا ہے، اگر والدین کوئی action بھی لینا چاہیں، تو لڑکی ساتھ نہیں ہے، اس کا کہنا ہے کہ میں اب اسی کے ساتھ رہونگی۔
اس صورت میں مفتی صاحب رہنمائی فرمادیں کہ شرعاً ان کا نکاح ہوا بھی ہے یا نہیں؟

جواب: واضح رہے کہ والدین کی رضامندی اور سرپرستی کے بغیرنکاح کرنا اکثر بے برکتی، بے اتفاقی اور آپس کی ناراضگیوں اور مستقبل میں پریشانیوں کا سبب بنتا ہے، جس سے احتراز کرنا چاہیے، لیکن اگر شرعی شرائط کے مطابق کوئی لڑکی اپنا نکاح کرے، تو ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکی عاقلہ بالغہ ہے، اور اس اپنی مرضی سے مہرِ مثل کے ساتھ شرعی شرائط کے مطابق ایسے لڑکے سے نکاح کیا ہے، جو اس کا کفو ہے، (یعنی لڑکا اپنی دینداری، مالداری، خاندانی شرافت اور حسب نسب میں لڑکی کے خاندان کے برابر یا اس سے اعلیٰ ہے) تو یہ نکاح منعقد ہوگیا ہے، ایسی صورت میں ان دونوں کا ایک ساتھ رہنا جائز ہے۔

ليكن اگر یہ نکاح کفو میں نہیں ہوا، (جیسا کہ سوال کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے) تو ایسا نکاح شرعا منعقد ہو جاتا ہے، البتہ اولاد ہونے سے پہلے پہلے تک لڑکی کے اولیاء کو عدالت سے رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل رہتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داود: (رقم الحديث: 2083، 425/3، ط: دار الرسالة العالمية)
عن عائشة قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "أيما امرأة نكحت بغير إذن مواليها ‌فنكاحها ‌باطل - ثلاث مرات - فإن دخل بها فالمهر لها بما أصاب منها، فإن تشاجروا فالسلطان ولي من لا ولي له.

سنن الترمذي: (رقم الحديث: 171، 213/1، ط: دار الغرب الإسلامي، بيروت)
عن ‌علي بن أبي طالب أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: «يا علي،» ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا ‌وجدت لها ‌كفؤا.

سنن ابن ماجه: (رقم الحدیث: 1968، 141/3، ط: دار الرسالة العالمية)
عن عائشة، قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "تخيروا لنطفكم وانكحوا الأكفاء وأنكحوا إليهم

بدائع الصنائع: (317/2، ط: دار الكتب العلمية)
وأما الثاني فالنكاح الذي الكفاءة فيه شرط لزومه هو إنكاح المرأة نفسها من غير رضا الأولياء لا يلزم»حتى لو زوجت نفسها من غير كفء من غير رضا الأولياء لا يلزم. وللأولياء حق الاعتراض؛ لأن في الكفاءة حقا للأولياء؛ لأنهم ينتفعون بذلك ألا ترى أنهم يتفاخرون بعلو نسب الختن، ويتعيرون بدناءة نسبه، فيتضررون بذلك، فكان لهم أن يدفعوا الضرر عن أنفسهم بالاعتراض.

الموسوعة الفقهية الكويتية: (266/34)
"1 - الْكَفَاءَةُ لُغَةً: الْمُمَاثَلَةُ وَالْمُسَاوَاةُ، يُقَال: كَافَأَ فُلاَنٌ فُلاَنًا مُكَافَأَةً وَكِفَاءً وَهَذَا كِفَاءُ هَذَا وَكُفْؤُهُ: أَيْ مِثْلُهُ، يَكُونُ هَذَا فِي كُل شَيْءٍ، وَفُلاَنٌ كُفْءُ فُلاَنَةَ: إِذَا كَانَ يَصْلُحُ بَعْلاً لَهَا، وَالْجَمْعُ أَكْفَاءٌ... فَفِي النِّكَاحِ: عَرَّفَهَا الْحَنَفِيَّةُ بِأَنَّهَا مُسَاوَاةٌ مَخْصُوصَةٌ بَيْنَ الرَّجُل وَالْمَرْأَةِ".

المبسوط للسرخسي: (24/5، ط: دار المعرفة، بيروت)
إذا عرفنا هذا فنقول: الكفاءة في خمسة أشياء (أحدها) النسب.... (والثاني): الكفاءة في الحرية... (والثالث): الكفاءة من حيث المال فإن من لا يقدر على مهر امرأة ونفقتها لا يكون كفؤا لها؛ لأن المهر عوض بضعها، والنفقة تندفع بها حاجتها، وهي إلى ذلك أحوج منها إلى نسب الزوج فإذا كانت تنعدم الكفاءة بضعة نسب الزوج فبعجزه عن المهر والنفقة أولى... (والرابع): الكفاءة في الحرف... (والخامس:) الكفاءة في الحسب، وهو مروي عن محمد قال: هو معتبر حتى إن الذي يسكر فيخرج فيستهزئ به الصبيان لا يكون كفئا لامرأة صالحة من أهل البيوتات، وكذلك أعوان الظلمة من يستخف به منهم لا يكون كفؤا لامرأة صالحة من أهل البيوتات إلا أن يكون مهيبا يعظم في الناس...إلخ

کذا فی فتاوی بنوری تاون: رقم الفتوی: 144110201100

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1237 Jan 13, 2022
ghar say / se bhag kar ghar walo / aulia / olia ki raza mandi k / kay baghair nikah ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.