سوال:
مفتی صاحب! حج فرض ہونے کے باوجود نہ کرنے کی صورت میں کیا حکم ہے؟ اس کی وضاحت فرمادیں۔
جواب: اگر کسی شخص پر حج فرض ہو اور اس کا انتقال ہوجائے، تو اگر اس نے مرنے سے پہلے حج بدل کی وصیت کی ہو، تو اس کے ایک تہائی (1/3) ترکہ سے اس کی طرف سے حج بدل کیا جائے گا، اور اگر وصیت نہیں کی ہو، تو اگر ورثاء اپنی صوابدید پر اس کی طرف سے حج بدل کریں گے، تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کا حج قبول فرماکر گناہوں کو معاف کردیں گے، البتہ اس صورت میں ورثاء پر میت کی طرف سے حج کرنا لازم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (249/1، ط: مكتبة رحمانية)
الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا على الزاد والراحلة فاضلاً عن المسکن، وما لا بد منه، وعن نفقة عیاله إلى حین عوده، وكان الطریق آمناً ووصفه الوجوب.
رد المحتار: (464/2، ط: سعید)
(قولہ قولان) ھما مبنیان علی ان وجود الزوج او المحرم شرط وجوب ام شرط اداء والذی اختارہ‘ فی الفتح انہ مع الصتحہ وامن الطریق شرط وجوب الا داء فیجب الا یصاء ان منع المرض او خوف الطریق اولم یوجد زوج ولا محرم۔
الھندیة: (258/1، ط: دار الفکر)
من عليه الحج إذا مات قبل أدائه فإن مات عن غير وصية يأثم بلا خلاف وإن أحب الوارث أن يحج عنه حج وأرجو أن يجزئه ذلك إن شاء الله تعالى، كذا ذكر أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - وإن مات عن وصية لا يسقط الحج عنه وإذا حج عنه يجوز عندنا باستجماع شرائط الجواز وهي نية الحج وأن( يكون الحج بمال الموصي أو بأكثره لا تطوعا وأن يكون راكبا لا ماشيا ويحج عنه من ثلث ماله سواء قيد الوصية بالثلث بأن أوصى أن يحج عنه بثلث ماله أو أطلق بأن أوصى بأن يحج عنه هكذا في البدائع.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی