سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص نے اپنی سالی سے زنا کیا، اب بعض علماء کہتے ہیں کہ جب تک سالی کو ایک حیض نہ آجائے تب تک اس شخص کا اپنی بیوی سے ہمبستری کرنا حرام ہے، جب کہ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ توبہ استغفار کر لینا کافی ہے۔ اس بارے میں درست اور محقق قول کیا ہے؟ مدلل رہنمائی کی درخواست ہے ۔
جواب: واضح رہے کہ سالی سے زنا کے بعد اپنی بیوی سے جماع کرنے سے متعلق احناف کے ہاں دو اقوال ملتے ہیں، پہلا قول یہ ہے کہ سالی سے زنا کے بعد استبراء رحم یعنی ایک حیض گزرنے یا حمل کی صورت میں وضع حمل سے پہلے بھی اپنی بیوی سے جماع کر سکتے ہیں،البتہ مستحب یہ ہےکہ استبراء رحم کے بعد اپنی بیوی سے جماع کرے۔ اس قول کو علامہ شامی نے رد المحتار میں نقل فرمایا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ استبراء رحم واجب ہے، یہ قول مجمع الانھر میں درایۃ عن الکامل کی روایت سے نقل کیا گیا ہے ،اور یہی قول النتف في الفتاوى میں بھی مذکور ہے،اسی طرح حضرت شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب نے فتاوی عثمانی میں اور حضرت مفتی شفیع صاحب قدس سرہ نے امداد المفتین میں اسی قول پر فتوی دیا ہے۔ پس جب کہ فروج سے متعلق معاملہ میں احتیاط والے پہلو کوملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک سالی کو ایک حیض نہ آجائے یا حمل کی صورت میں وضع حمل نہ ہو جائے اس وقت تک اپنی بیوی سے جماع کرنا جائز نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار:(باب الاستبراء وغیرہ،380/6،ط: سعید)
ﻭﻣﻨﻬﺎ: ﺇﺫا ﺯﻧﻰ ﺑﺄﺧﺖ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺃﻭ ﺑﻌﻤﺘﻬﺎ ﺃﻭ ﺑﺨﺎﻟﺘﻬﺎ ﺃﻭ ﺑﻨﺖ ﺃﺧﻴﻬﺎ ﺃﻭ ﺃﺧﺘﻬﺎ ﺑﻼ ﺷﺒﻬﺔ ﻓﺈﻥ اﻷﻓﻀﻞ ﺃﻥ ﻻ ﻳﻄﺄ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺣﺘﻰ ﺗﺴﺘﺒﺮﺃ اﻟﻤﺰﻧﻴﺔ.
النتف في الفتاویٰ:(کتاب النکاح294/1،ط: مؤسسة الرسالة)
ﻭاﻟﺨﺎﻣﺲ ﻋﺸﺮ اﺫا ﻭﻃﺄ ﺫاﺕ ﻣﺤﺮﻡ ﻣﻦ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﻣﻤﻦ ﻻ ﻳﺤﺮﻡ ﻋﻠﻴﻪ ﺑﺰﻧﺎ ﻓﺎﻧﻪ ﻻ ﻳﻄﺄ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺣﺘﻰ ﻳﺴﺘﺒﺮﺉ اﻟﻤﻮﻃﻮءﺓ ﺑﺤﻴﻀﺔ ﻻﻧﻪ ﻻ ﻳﺤﻞ ﻟﻪ ﺭﺣﻤﺎﻥ ﻣﺤﺮﻣﺎﻥ ﻓﻴﻬﻤﺎ ﻣﺎﺅﻩ.
مجمع الأنھر: (باب المحرمات، 479/1، ط: رشدیه)
وفي الدراية لو زنى باحد الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى بحيضة.
الفقه الأسلامي وأدلته: (الجمع بين الأختين ونحوها في العدة، 6666/9،ط: دار الفکر)
ﻭﺇﻥ ﺯﻧﻰ اﻟﺮﺟﻞ ﺑﺎﻣﺮﺃﺓ، ﻓﻠﻴﺲ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺘﺰﻭﺝ ﺑﺄﺧﺘﻬﺎ، ﺣﺘﻰ ﺗﻨﻘﻀﻲ ﻋﺪﺗﻬﺎ. ﻭﺣﻜﻢ اﻟﻌﺪﺓ ﻣﻦ اﻟﺰﻧﺎ، ﻭاﻟﻌﺪﺓ ﻣﻦ ﻭﻁء اﻟﺸﺒﻬﺔ، ﻛﺤﻜﻢ اﻟﻌﺪﺓ ﻣﻦ اﻟﻨﻜﺎﺡ.
امداد المفتين: (فصل في الجمع بين الأختين، 559/8،ط: ادارۃ المعارف کراچی)
صورۃ مذکورہ میں زید پر اس کی زوجہ زینب ہمیشہ کے لیے تو حرام نہیں ہوئی ،مگر جب تک اس کی بہن جس سے زنا کیا ہے، اس پر ایک حیض نہ گزر جائے، اس وقت تک اپنی زوجہ زینب سے جماع کرنا اس کے لیے جائز نہیں۔
فتاوی عثمانی: (فصل في احكام المصاهرة، 253/2، ط: معارف القرآن کراچی)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی