سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! جمعرات کو کراچی اجتماع میں ہماری نمازوں میں اتصال صحیح نہیں تھا، تو ان نمازوں کا کیا حکم ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کی گئی صورت میں اگر اتصال صحیح نہ ہونے سے آپ کی مراد یہ ہے کہ صفوں کے درمیان میں آگے پیچھے کہیں دو صفوں سے زیادہ کا فاصلہ تھا، تو ایسی صورت میں جو لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے، ان کی اقتدا درست نہیں ہوئی، وہ ان نمازوں کی قضاء پڑھ لیں۔
اور اگر اتصال صحیح نہ ہونے سے آپ کی مراد کچھ اور ہے، تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ دارالافتاء سے رجوع کرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 719، ط: السلطانية)
حدثنا أنس قال: أقيمت الصلاة، فأقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجهه فقال: أقيموا صفوفكم وتراصوا، فإني أراكم من وراء ظهري.
الدر المختار مع رد المحتار: (584/1، ط: الحلبي، بيروت)
(ويمنع من الاقتداء) .... (طريق، تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف.
وقال ابن عابدين تحته: (قوله يسع صفين) نعت لقوله خلاء، والتقييد بالصفين صرح به في الخلاصة والفيض والمبتغى. وفي الواقعات الحسامية وخزانة الفتاوى: وبه يفتي إسماعيل، فما في الدرر من تقييده الخلاء بما يمكن الاصطفاف فيه غير المفتى به تأمل.
کذی فی فتاوى بنوري تاون: رقم الفتوى: 144107200599
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی