resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: بیٹی کی میراث میں والد کا حصہ(9315-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! وراثت سے متعلق ایک سوال پوچھنا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میری والدہ کا انتقال ہوا تھا، ان کی وراثت میں 5.5 ایکڑ زمین ہے، ورثاء میں ایک بیٹا، ایک بیٹی اور شوہر ہیں، اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے نانا یعنی میری والدہ کے والد بھی زندہ ہیں، جب میری والدہ پیدا ہوئی تھیں، تو میری نانی کا انتقال ہوگیا تھا، اور میرے نانا نے بھی دوسری شادی کرلی تھی، میری والدہ کو ان کے نانا نانی (والدہ کے نانا نانی) نے پالا، شادی کی اور زمین بھی انہوں نے ہی دی تھی، جبکہ میرے نانا یعنی میری والدہ کے والد نے میری والدہ کی کفالت نہیں کی تھی، اور نہ ہی کچھ خرچہ اٹھایا تھا، تو کیا اس کے باوجود ان کو (میری والدہ کے والد کو) میری والدہ کی جائیداد میں سے حصہ ملے گا؟
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میری والدہ نے اپنی ساری زمین میرے والد صاحب (اپنے شوہر) کے حوالے کی ہوئی تھی، والدہ کہتی تھیں کہ یہ زمین آپ کی اور میری اولاد کی ہے، 1.5 ایکڑ میرے ابو کے نام کی ہوئی تھی، باقی چار ایکڑ والدہ کے نام ہے، کیونکہ شریعت میں ہبہ والی شرائط بھی ہوتی ہیں، تو ان دونوں مسئلوں کو دیکھتے ہوئے میرے نانا کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟ اگر بنتا ہے، تو کتنا بنے گا؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
تنقیح:
محترم ! شوہر کے حوالہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ کیا آپ کی والدہ نے اپنے شوہر کے نام کرنے کے ساتھ قبضہ و تصرف بھی دے دیا تھا؟ یا صرف نام کی تھی؟
اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔
جواب تنقیح:
جی! قبضہ تو ابو کے پاس تھا، ابو جان اپنی مرضی سے کاشت، سب دیکھ بھال اور زمین سے متعلق سارے معاملات دیکھتے تھے، یہاں تک کہ امی جان زمین سے آنے والی ساری رقم بھی ابو کے حوالہ کردیتی تھیں، بس جو زمین نام ہے، وہ کچھ ابو کے اور زیادہ امی کے نام ہے۔
دوسرا یہ ہے کہ امی جان کا اپنے والد سے کوئی لین دین بھی نہیں تھا، انہوں نے کچھ بھی اپنی جائیداد سے امی کو نہ دیا، ان کا خیال تھا کہ امی صرف نام کی بیٹی ہے۔

جواب: واضح رہے کہ زندگی میں مکان یا کوئی جائیداد کسی کے نام کرنا، شرعاً ہبہ (gift) کہلاتا ہے، اور ہبہ کے مکمل ہونے کے لئے شرعاً ضروری ہے کہ کاغذی کاروائی میں اس کے نام کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو باقاعدہ مالک اور قابض بناکر دیا جائے، اور اگر ہبہ کے طور پر دی جانے والی چیز ناقابلِ تقسیم ہو یا تقسیم کے بعد اس سے نفع حاصل کرنا مشکل ہو٬ تو وہاں قبضہ حکمی یعنی مالکانہ تصرف کرنے کا حق دینا بھی کافی سمجھا جائے گا٬ جس سے ہبہ مکمل ہوجائے گا، جبکہ ناقابلِ تقسیم چیزوں میں مالکانہ تصرف کا حق دئیے بغیر محض کاغذی کاروائی میں کسی کے نام کرنے سے اگلے کی ملکیت اور قبضہ ثابت نہ ہوگا، جب تک کہ اسے باقاعدہ مالکانہ قبضہ یا مالکانہ تصرفات کا حق نہ دے دیا جائے۔
اس وضاحت کے بعد موجودہ صورتحال میں چونکہ بیوی نے 1.5 ایکڑ زمین شوہر کو مالکانہ تصرف اور قبضہ کے ساتھ دے دی تھی، (جیسا کہ جواب تنقیح سے معلوم ہوا کہ شوہر ہی اس کا کرایہ لیتا تھا) اس لیے 1.5 ایکڑ زمین شوہر کی ملکیت شمار ہوگی، جس کا وہ تنہا مالک ہوگا۔
جبکہ بقیہ 4 ایکڑ زمین میں آپ کی والدہ کی ملکیت شمار ہوگی، جو ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء میں (جن میں ان کے والد بھی شامل ہیں) شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگی۔
واضح رہے کہ اگر آپ کی والدہ کے انتقال کے وقت ورثاء میں شوہر، بیٹا، بیٹی اور والد موجود ہوں، تو ایسی صورت میں والد (آپ کے نانا) کو اپنی مرحومہ بیٹی کی میراث میں سے چھٹا (1/6) حصہ ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایۃ: 11)
ولابویہ لکل واحد منھماالسدس مما ترک ان کان لہ ولد ۔۔۔۔الخ

الهندية: (374/4، ط: دار الفکر، بیروت)
"ومنها: أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب"


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

beti / daughter ki meras me / may / mein walid ka hisa

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster