سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! مجھ پر کافی خطیر رقم کا قرضہ ہے، اور تقریباً اتنی ہی مالیت کے اثاثے بھی میرے پاس ہیں، فی الوقت میں وہ قرض اتارنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔
میرا سوال یہ ہے کہ میرے پاس کچھ رقم ہے، جو قرض اتارنے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔ (قرض کی رقم کا پانچ فیصد بھی نہیں ہے) میں عمرہ کے لیے جانا چاہتا ہوں، کیا اس حال میں عمرہ کے لیے جاسکتا ہوں، میں نے حج ادا نہیں کیا ہوا، اور عمرہ ایک دفعہ کربھی چکا ہوں۔
جواب: آپ کو ابتداء قرض کی ادائیگی کی ہی فکر کرنی چاہیے، تاہم اگر سہولت کے ساتھ قرض کے ادا ہوجانے کی توقع ہو، تو ایسی صورت میں عمرہ کرنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (462/2، ط: الحلبي، بيروت)
مطلب في قولهم يقدم حق العبد على حق الشرع
(قوله لتقدم حق العبد) أي على حق الشرع لا تهاونا بحق الشرع، بل لحاجة العبد وعدم حاجة الشرع ألا ترى أنه إذا اجتمعت الحدود، وفيها حق العبد يبدأ بحق العبد لما قلنا ولأنه ما من شيء إلا ولله تعالى فيه حق، فلو قدم حق الشرع عند الاجتماع بطل حقوق العباد كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان وأما قوله - عليه الصلاة والسلام - «فدين الله أحق» فالظاهر أنه أحق من جهة التعظيم، لا من جهة التقديم، ولذا قلنا لا يستقرض ليحج إلا إذا قدر على الوفاء كما مر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی