سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! درج ذیل طریقہ میں کوئی بات سود سے مشابہت تو نہیں رکھتی، زید ایک سبزی فروش ہے، اور حامد زید کا گاہک ہے، زید حامد سے دو ہزار روپے ادھار لیتا ہے، اور کہتا ہے کہ ہم سبزی میں حساب کرکے برابر کرلیں گے، زید عموماً حامد کو سبزی اچھے ڈسکاؤنٹ پر فروخت کرتا ہے، لیکن اس معاملے کے بعد حامد کا یہ گمان ہے کہ وہ اور زیادہ ڈسکاؤنٹ کرتا ہے، ہری مرچ، دھنیہ اور پودینہ وغیرہ مفت میں بھی دیتا ہے، حامد کو یہ معلوم کرنا ہے کہ کہیں اس میں سود کا کوئی عنصر تو نہیں ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں ادھار لی جانے والی رقم کی حیثیت قرض کی ہے، اور قرض کی وجہ سے مشروط یا معروف نفع کا لین دین سود ہے، لیکن اگر مذکورہ صورت میں قرض کی وجہ سے دوکاندار کا گاہک کو ڈسکاؤنٹ دینا مشروط یا معروف نہ ہو، تو پھر یہ سود کے حکم میں داخل نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السنن الکبری للبیهقي: (باب کل قرض جر منفعة فھو ربا، رقم الحدیث: 11092)
عن فضالۃ بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعۃ فہو وجہ من وجوہ الربا
رد المحتار: (395/7، ط: زکریا)
"كل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا
مجلة الأحكام العدلية: (رقم المادۃ: 44- 45)
المعروف عرفاً کالمشروط شرطاً ای المعروف المعتاد بین الناس وان لم یذکر صریحاً… المعروف بین التجار کالمشروط بینہم
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی