سوال:
السلام علیکم، محترم جناب مفتی صاحب! تین لوگوں نے شرکت کے ساتھ برابر برابر پیسے لگا کر ایک اسکول شروع کیا ہے، اس طور پر کہ جتنا نفع نقصان ہوگا، اس میں سب لوگ برابر کے شریک رہیں گے، اور ایک شریک وہاں پڑھا رہے ہیں اور دو لوگ نہیں پڑھا رہے ہیں، جو پڑھا رہے ہیں، ان کی تنخواہ متعین کی گئی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس طرح شراکت داری درست ہے؟ کیا ایک شریک کام کر کے تنخواہ لے سکتے ہیں؟ اور جو تنخواہ دی جارہی ہے، وہ کس کے ذمہ ہے؟
جواب: جب دو یا دو سے زیادہ آدمی کسی کاروبار میں شریک ہوں اور ان میں سے کوئی شریک کام کرے، کوئی دوسرا شریک کام نہ کر رہا ہو، تو کام کرنے والے شریک کے نفع کا تناسب اس کے سرمایہ کے تناسب سے زیادہ مقرر کیا جاسکتا ہے، نیز اگر عمل کرنے والے (working partner) شریک کی الگ سے متعین تنخواہ بھی طے کرلی جائے، تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
لہذا مذکورہ صورت میں بے غبار طریقہ کار تو یہ ہے کہ سکول میں پڑھانے والے شریک کے نفع کا تناسب زیادہ مقرر کرلیا جائے، تاہم پڑھانے کے عوض اس کی تنخواہ اجرت کے طور پر بھی طے کی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار:(312/4، ط۔ دارالفکر)
(قولہ: ومع التفاضل فی المال دون الربح) أی بأن یکون لأحدہما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوی فی الربح، وقولہ وعکسہ: أی بأن یتساوی المالان ویتفاضلا فی الربح، لکن ہذا مقید بأن یشترط الأکثر للعامل منہما أو لأکثرہا عملا، أما لو شرطاہ للقاعد أو لأقلہما عملا فلا یجوز کما فی البحر عن الزیلعی والکمال
و فیه ایضا: (باب الإجارۃ الفاسدۃ: 47/6، ط: سعید)
(و) تفسد أيضا (بالشيوع)، بأن يؤجر نصيبا من داره، أو نصيبه من دار مشتركة من غير شريكه، أو من أحد شريكيه. أنفع الوسائل وعمادية من الفصل الثلاثين. . .(إلا إذا آجر) كل نصيبه أو بعضه (من شريكه) فيجوز، وجوازه بكل حال، وعليه الفتوى زيلعي وبحر معزيا للمغني.
قوله:( فيجوز): أي في أظهر الروايتين خانية. قوله:( وجوزاه بكل حال): أي سواء كان من شريكه، أو لا فيما يحتمل القسمة، أو لا ح، لكن بشرط بيان نصيبه، وإن لم يبين لا يجوز في الصحيح، زيلعي.
کذا فی احسن الفتاوی: (321/7، ط: سعید)
کذا فی تبوب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 799/22
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی