سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! مجھے یہ پوچھنا تھا کہ دو سال پہلے میرا نکاح ہوا تھا، رخصتی نہیں ہوئی تھی، میں اپنی بیوی سے ملنے اس کے گھر جاتا تھا، لیکن گھر میں سب ہوتے تھے، ہم کمرے میں تھوڑی دیر بیٹھ کر باتیں کرتے تھے، کمرہ lock نہیں ہوتا تھا، مگر بیوی سے بوس وکنار کرلیتا تھا، مگر یہ ڈر لگا رہتا تھا کہ کمرہ میں کوئی آنا جائے، کیونکہ کمرہ lock نہیں کرتے تھے، اور ایک بار بیوی کی مرضی کے بغیر زبردستی کرکے اس کے پستان کو صرف ایک لمحے کے لیے چوس لیا، کیونکہ کمرہ lock نہیں تھا، ڈر تھا کہ کوئی آنا جائے، ہم کبھی بھی کمرہ lock کرکے نہیں بیٹھے، اب میں نے اسے دو بندوں کے سامنے طلاق دے دی ہے، پیپر پڑھ کر کہا: ”طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں“ اور پھر وہ پیپر میں نے اس کے گھر پر بھیج دیئے، اس بات کو ایک سال ہوگیا ہے، اب میں دوبارہ اس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں، تو کیا میں اس سے دوبارہ نکاح کرسکتا ہوں؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: سوال میں ذکرکردہ صورت میں آپ اور آپ کی بیوی کے درمیان خلوتِ صحیحہ ثابتہ ہو چکی ہے اور خلوت صحیحہ کے بعد آپ نے ان الفاظ سے اپنی منکوحہ کو تین طلاقیں دی ہیں: میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، لہذا تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں، (اگرچہ رخصتی نہیں ہوئی ہے) اور بیوی شوہر کے لیے حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو گئی ہے، نیز اب شوہر کو رجوع کا کوئی حق حاصل نہیں رہا۔
البتہ اگر وہ عورت پہلے شوہر کی عدت (تین ماہواریاں) گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرے، اور اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرے، پھر وہ اسے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہو جائے، تو عدت گزرنے کے بعد طرفین کی رضامندی سے نئے مہر اور دو گواہوں کی موجودگی میں اسی شخص سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
عمدة القاری شرح صحيح البخاري: (233/20، ط: دار إحياء التراث العربی)
”ومذہب جماہیر العلماء من التابعین ومن بعدہم منہم: الأوزاعي والنخعي والثوري، و أبو حنیفة وأصحابہ، ومالک و أصحابہ، والشافعي وأصحابہ، وأحمد و أصحابہ، و اسحاق و أبو ثور و أبو عبید وآخرون کثیرون علی أن من طلق امرأتہ ثلاثاً، وقعن؛ولکنہ یأثم“.وقالوا: من خالف فيه فهو شاذ مخالف لأهل السنة، وإنما تعلق به أهل البدع ومن لا يلتفت إليه لشذوذه عن الجماعة التي لا يجوز عليهم التواطؤ على تحريف الكتاب والسنة. وأجاب الطحاوي عن حديث ابن عباس بما ملخصه إنه منسوخ، بيانه أنه لما كان زمن عمر رضي الله تعالى عنه، قال: (يا أيها الناس! قد كان لكم في الطلاق أناة وإنه من تعجل أناة الله في الطلاق ألزمناه إياه) ، رواه الطحاوي بإسناد صحيح.
فتح القدیر: (451/3، ط: دار الکتب العلمیة)
ذہب جمہور الصحابة والتابعین ومن بعدہم من أئمة المسلمین الی أنہ یقع ثلاثاً".
رد المحتار: (119/3، ط: دار الفکر)
(قوله وكذا في وقوع طلاق بائن آخر إلخ) في البزازية: والمختار أنه يقع عليها طلاق آخر في عدة الخلوة، وقيل لا اه وفي الذخيرة: وأما وقوع طلاق آخر في هذه العدة فقد قيل لا يقع وقيل يقع، وهو أقرب إلى الصواب لأن الأحكام لما اختلفت يجب القول بالوقوع احتياطا، ثم هذا الطلاق يكون رجعيا أو بائنا ذكر شيخ الإسلام أنه يكون بائنا اه ومثله في الوهبانية وشرحها.
والحاصل أنه إذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارة تكون كالوطء وتارة لا تكون جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدة بخلاف هذه.
والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائنا هو الاحتياط أيضا، ولم يتعرضوا للطلاق الأول. وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضا لأن طلاق قبل الدخول غير موجب للعدة لأن العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطء احتياطا، فإن الظاهر وجود الوطء في الخلوة الصحيحة ولأن الرجعة حق الزوج وإقراره بأنه طلق قبل الوطء ينفذ عليه فيقع بائنا، وإذا كان الأول لا تعقبه الرجعة يلزم كون الثاني مثله. اه. ويشير إلى هذا قول الشارح طلاق بائن آخر فإنه يفيد أن الأول بائن أيضا، ويدل عليه ما يأتي قريبا من أنه لا رجعة بعده، وسيأتي التصريح به في باب الرجعة، وقد علمت مما قررناه أن المذكور في الذخيرة هو الطلاق الثاني دون الأول فافهم. ثم ظاهر إطلاقهم وقوع البائن أولا وثانيا وإن كان بصريح الطلاق، وطلاق الموطوءة ليس كذلك فيخالف الخلوة الوطء في ذلك.وأجاب ح: بأن المراد التشبيه من بعض الوجوه وهو أن في كل منهما وقوع طلاق بعد آخر. اه. وأما الجواب بأن البائن قد يلحق البائن في الموطوء فلا يدفع المخالفة المذكورة فافهم.
الدر المختار مع رد المحتار: (114/3، ط: دار الفکر)
"(والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي كالوطء ... (كالوطء) فيما يجيء .... في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها .... وكذا في وقوع طلاق بائن آخر على المختار"....
(قوله وبيت بابه مفتوح) أي بحيث لو نظر إنسان رآهما، وفيه خلاف.
ففي مجموع النوازل: إن كان لا يدخل عليهما أحد إلا بإذن فهي خلوة. واختار في الذخيرة أنه مانع وهو الظاهر بحر. ووجهه أن إمكان النظر مانع بلا توقف على الدخول، فلا فائدة في الإذن وعدمه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی