سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میری خالہ کے 120000 روپے کاروبار کے میرے پاس ہیں، جس سے خالہ کو 2000 تک کی بچت ہوجاتی ہے، لیکن خالہ کے شوہر کی بیماری کی وجہ سے کوئی آمدنی نہیں ہے، خالہ نے اپنی بیٹی کی شادی اور اپنے کفن دفن وغیرہ کے لیے دو تولہ سونا رکھا ہوا ہے، کیا میں ان کو زکوٰۃ دے سکتا ہوں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کی خالہ مستحقِ زکوۃ نہیں ہیں، اس لیے ان کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
البتہ اگر وہ ضرورت مند ہیں، تو دیگر نفلی صدقات، خیرات و عطیات سے ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (التوبة، الایة: 60)
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌo
الھندیة: (باب المصرف، 189/1، ط: رشیدیة)
" لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. ... ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي."
الفقه الاسلامی و ادلته: (2056/3، ط: دار الفکر)
ب صاحب الحاجة الشديدة: تستحب الصدقة على من اشتدت حاجته لقول الله تعالى: {أو مسكينا ذا متربة} [البلد:16/ 90].
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی