سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک آدمی نے دوشادیاں کی ہیں، ایک بیوی پاکستان میں ہوتی ہے، جس کے تین بچے ہیں، دوسری انگلینڈ میں ہوتی ہے، جس کے دو بچے ہیں، دونوں کے ساتھ خاوند کے تعلقات درست ہیں، انگلینڈ والی بیوی اس کو انگلینڈ بلوا نا چاہتی ہے، لیکن وہاں کا قانون یہ ہے کہ آدمی کی صرف ایک ہی شادی ہو، اب خاوند یہ کرے گا کہ ایک جھوٹی ڈگری بنائے گا، جس میں تحریری طور پر یہ ظاہر کرے گا کہ اس نے پاکستان والی بیوی کو طلاق دے دی ہے، لیکن دل اور زبان سے طلاق نہیں دے گا، اور کہے گا کہ میرے اس بیوی سے تین بچے ہیں، پھر جب انگلینڈ والی بیوی اس کو باہر ملک بلوا لے گی، تو یہ خاوند پاکستان والی بیوی سے جو اولاد ہے، ان کو بھی باہر ملک بلوا لے گا، بالفرض اگر یہ دوسری شادی کا ذکر نہیں کرتا اور طلاق کا ذکر بھی نہیں کرتا، تو پھر یہ اپنی پاکستان والی بیوی کی اولاد کو انگلینڈ نہیں بلوا سکے گا۔
اب وضاحت طلب بات یہ ہے کہ اس شخص کا یہ فعل از روئے شرع کیسا ہے؟ اور آیا کہ اس طرح جھوٹ بول کر کاغذات میں طلاق شو کرنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ جبکہ زبان اور دل سے وہ طلاق دینا نہیں چاہتا، وضاحت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب: اگر فرضی اور جھوٹا طلاق نامہ بنوانے سے پہلے فرضی اور جھوٹا طلاق نامہ بنوانے پر دو گواہ بنالیے جائیں، جنہیں معلوم ہو کہ جھوٹا طلاق نامہ بنوایا جا رہا ہے، تو اس صورت میں جھوٹا طلاق نامہ بنوانے سے طلاق واقع نہیں ہوگی، لیکن اگر گواہ نہیں بنائے گئے، اور طلاق نامہ تیار کرلیا گیا، بعد میں دعوی کیا گیا کہ یہ جھوٹا اور فرضی طلاق نامہ ہے، تو اس دعوی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، اور طلاق واقع ہو جائے گی۔
لہذا سوال میں ذکرکردہ صورت میں اگر قانونی مجبوری کی بناء پر جھوٹا طلاق نامہ بنوانے کی ضرورت پیش آرہی ہے، تو محض جھوٹا طلاق نامہ بنوانے سے طلاق واقع نہیں ہوگی، بشرطیکہ طلاق بنوانے سے پہلے دو گواہ بنالیے گئے ہوں کہ میں نے اس طلاق نامہ کے ذریعے نہ طلاق دی ہے اور نہ ہی طلاق دے رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (238/3، ط: دار الفکر)
لو أراد به الخبر عن الماضي كذبا لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضا. اه.
فتاوی محمودیة: (247/12، ط: ادارۃ الفاروق)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی