سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! آج کل صبح صادق 4:14 پر ہورہی ہے، دور سے اذان کی 4:20 سے آواز آتی ہے، مگر ہمارے محلے کی اذان 4:40 پر ہوتی ہے، ایسے میں سحری کب تک ختم کرنے کی گنجائش ہوگی؟ براہ مہربانی رہنمائی کردیں۔جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ سحری کا وقت صبح صادق ہونے تک رہتا ہے، صبح صادق ہوتے ہی سحری کا وقت ختم ہو کر فجر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے، اگرچہ فجر کی اذان نہ ہوئی ہو، کیونکہ کسی بھی نماز کا وقت ختم ہونے یا شروع ہونے کا مدار اذان ہونے پر نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس نماز کا وقت داخل ہونے پر ہوتا ہے۔
چونکہ صبح صادق کے بعد سحری کھانے سے روزہ درست نہیں ہوگا، اگرچہ آپ کے محلہ میں اذان نہ ہوئی ہو، لہذا آپ کو چاہیے کہ آپ نماز کے اوقات کے نقشہ میں صبح صادق کا وقت دیکھ لیں، اور اس کے مطابق سحری ختم کرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 706، 79/2، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن سمرة بن جندب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يمنعنكم من سحوركم أذان بلال ولا الفجر المستطيل، ولكن الفجر المستطير في الأفق.
هذا حديث حسن
الدر المختار مع رد المحتار: (357/1، ط: دار الفكر)
(وقت) صلاة (الفجر ... من) أول (طلوع الفجر الثاني) وهو البياض المنتشر المستطير لا المستطيل.
(قوله: وهو البياض إلخ) لحديث مسلم والترمذي واللفظ له «لا يمنعنكم من سحوركم أذان بلال ولا الفجر المستطيل ولكن الفجر المستطير» " فالمعتبر الفجر الصادق وهو الفجر المستطير في الأفق: أي الذي ينتشر ضوءه في أطراف السماء لا الكاذب وهو المستطيل الذي يبدو طويلا في السماء كذنب السرحان أي الذئب ثم يعقبه ظلمة.
[فائدة] ذكر العلامة المرحوم الشيخ خليل الكاملي في حاشيته على رسالة الأسطرلاب لشيخ مشايخنا العلامة المحقق علي أفندي الداغستاني أن التفاوت بين الفجرين وكذا بين الشفقين الأحمر والأبيض إنما هو بثلاث درج. اه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی