سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرے والد نے میری والدہ کی وفات کے بعد دوسری شادی کی، جس عورت سے شادی کی ہے، وہ بیوہ تھی، اور اس کے دو بیٹے پہلے شوہر سے تھے، ایک چھوٹا بیٹا رہنے ساتھ لائی، اور میرے والد نے اس کو ربیب کے طور پر پالا پوسا، جب وہ ربیب بڑا ہوا، تو میری وہ شوتیلی ماں نے اپنے اس بیٹے کے لیے میری بہن سے نکاح کرانا چاہا، میرے والد راضی تھے، لیکن میں نے گھر والوں اور سوتیلی ماں سے جھگڑا کیا، اور غصہ بھی ہوا کہ میں نے اپنی بہن کو اس ربیب کو دینے پر راضی نہیں ہوں، اور غصہ میں منہ سے کئی دفعہ یہ الفاظ نکلے کہ "اگر وہ لڑکا آئندہ میرے گھر آیا، تو میں اسے قتل کر دوں گا، اگر قتل نہیں کیا، تو میری بیوی مجھ سے طلاق ہوجائے" یہ الفاظ کئی دفعہ دہرائے، اس کے بعد وہ لڑکا میرے گھر تو نہیں آیا، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ لڑکا میرے گھر آئے، تو بیوی کو طلاق ہوگی یا نہیں؟ اگر کوئی ایسا حل ہو، کہ وہ لڑکا میرے گھر اپنی والدہ سے ملنے آئے اور میری بیوی کو طلاق بھی نہ ہو، اگر ایسا کوئی شرعی حل ہے، تو براہ کرم اس کی وضاحت فرمادیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ شوہر نے طلاق کو لڑکے کے گھر آنے کے بعد اسے قتل کرنے پر معلق کیا ہے، لہذا اگر وہ لڑکا اپنی والدہ سے ملنے اس شخص کے گھر آتا ہے اور یہ شخص اسے قتل نہیں کرتا (جبکہ اسے قتل کرنا حرام ہے) تو اس شخص کی بیوی پر اتنی طلاقیں واقع ہوجائیں گی، جتنی مرتبہ اس نے یہ جملہ کہا تھا۔
لہذا اگر اس شخص نے یہ جملہ تین یا اس سے زیادہ مرتبہ کہا ہو، تو شرط پوری نہ کرنے کی صورت میں اس شخص کی بیوی پر قضاء تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی، اور اس کی بیوی اس شخص پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ اگر شوہر نے تین طلاقوں کو معلق کیا ہو، تو تین طلاقوں سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ مذکورہ شخص اپنی بیوی کو ایک طلاق دے کر چھوڑدے، جب اس کی عدت پوری ہوجائے، تو وہ لڑکا اس کے گھر آجائے، اس تدبیر سے تعلیق ختم ہوجائے گی اور بیوی تین طلاقوں سے بچ جائے گی اور آئندہ اگر وہ لڑکا اس کے گھر آئے گا، تو اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
اس کے بعد شوہر نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیا نکاح کرلے، تاہم اس صورت میں آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (838/3، ط: دار الفكر)
إن رأيتك فلم أضربك فرآه الحالف وهو مريض لا يقدر على الضرب حنث.
إن لقيتك فلم أضربك فرآه من قدر ميل لم يحنث بحر.
المحيط البرهاني: (392/3، ط: دار الكتب العلمية)
ذكر ابن سماعة في نوادره عن محمد رحمه الله: إذا قال الرجل: إن رأيت فلانا لم آتك به فامرأته طالق، فرآه الحالف في أول ما رآه مع هذا الرجل الذي قال له فلم آتك به ، قال: الحالف حانث ساعة لأنه لا يستطيع أن ياتيه به.
الدر المختار مع رد المحتار: (باب التعليق، 621/4، ط: مكتبه رشيديه)
في أيمان الفتح ما لفظه، وقد عرف في الطلاق أنه لو قال: إن دخلت الدار فأنت طالق، إن دخلت الدار فأنت طالق، إن دخلت الدار فأنت طالق وقع الثلاث، وأقره المصنف ثمة.
(قوله وقع الثلاث): يعني بدخول واحد كما تدل عليه عبارةأيمان الفتح، حيث قال: ولو قال لامرأته والله لا أقربك ثم قال والله لا أقربك فقربها مرة لزمه كفارتان. اه. والظاهر أنه إن نوى التأكيد يدين.
و فيه أيضا: (357/3)
"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدةً ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها".
الهندية: (420/1، ط: رشيديه)
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق".
امداد الاحکام: (فصل فی تعلیق الطلاق، 530/2، ط: دار العلوم کراتشي)
احسن الفتاوی: (کتاب الطلاق، 153/5، ط: سعید)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی