سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میری بہن نے خود کشی کی دھمکی دیتے ہوۓ مجھے اپنی بیوی کو طلاق دینے کو کہا، تین طلاقوں کا طلاق نامہ میرے سامنے لکھا گیا، مجھے معلوم تھا اس میں تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں، میں نے اس پر دستخط کردیئے، آیا اس طرح طلاق دینے سے طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ زبانی طلاق کی طرح تحریری طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے، البتہ اگر شوہر کو تحریری طلاق پر "اکراہ" کی حد تک مجبور کر دیا جائے، اور اس نے زبان سے طلاق کے الفاظ ادا نہ کیے ہو، تو ایسی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔
سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعتاً درست ہے کہ آپ کی بہن نے آپ کو طلاق دینے پر مجبور کیا، یعنی اگر آپ اپنی بیوی کو طلاق نہ دیتے، تو آپ کو یقین یا غالب گمان تھا کہ آپ کی بہن خودکشی کر لیتی، تو یہ صورت اکراہ (مجبوری) کی ہے، اور اکراہ کی حالت میں تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، لہذا ایسی صورت میں آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
البتہ اگر ایسی صورت نہیں تھی، یعنی اگر آپ اپنی بیوی کو طلاق نہ دیتے، تو آپ کو یقین یا غالب گمان تھا کہ آپ کی بہن خود کشی نہیں کرے گی، محض آپ پر بہن کا دباؤ تھا اور اس دباؤ کی وجہ سے آپ نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، تو ایسی صورت "اکراہ" میں داخل نہیں ہے، لہذا ایسی صورت میں طلاق نامہ میں لکھی گئی تعداد کے مطابق آپ کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (176/7، ط: دار الكتب العلمية)
وأما بيان أنواع الإكراه فنقول: إنه نوعان : نوع يوجب الإلجاء والاضطرار طبعاً كالقتل والقطع والضرب الذي يخاف فيه تلف النفس أو العضو قل الضرب أو كثر.... وهذا النوع يسمى إكراها تاما.
أما الذي يرجع إلي المكره فهو أن يكون قادرا علي تحقيق ما أوعد؛ لأن الضرورة لا تتحقق إلا عند القدرة.
وأما النوع الذي يرجع إلي المكره فهو أن يقع في غالب رأيه واكثر ظنه أنه لو لم يجب إلي ما دعي إليه تحقق ما أوعد به؛ لأن غالب الرأي حجة خصوصا عند تعذر الوصول إلي التعيين حتى أنه لو كان في أكثر رأي المكره أن المكره لا يكره ما أوعده لا يثبت حكم الإكراه شرعا.
الفتاوي الهندية: (الطلاق بالكتابة، 378/1، ط: دار الفكر)
رجل أكره بالضرب والحبس علي أن يكتب طلاق إمرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب إمرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق إمرأته كذا في فتاوي قاضي خان.
رد المحتار: (130/6، ط: دار الفكر)
(قوله: أو حبس) أي حبس نفسه قال الزيلعي: والإكراه بحبس الوالدين أو الاولاد لا يعد إكراها لأنه ليس بملجئ ولا يعدم الرضا بخلاف نفسه اه. لكن في الشرنبلالية عن المبسوط: أنه قياس وفي الاستحسان حبس الأب إكراه. وذكر الطوري أن المعتمد أنه لا فرق بين حبس الوالدين والولد في وجه الاستحسان زاد القهستاني أو غيرهم: من ذوي رحم محرم وعزاه للمبسوط.
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشي: رقم الفتوي: 60/1480
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی