عنوان: کم سونے والی انگوٹھی کے بدلے زیادہ سونے والا زیور خریدنے کا حکم اور شرعی طریقہ (9652-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر میں سنار کے پاس ایک انگوٹھی جو 4 گرام کی ہے، اسکے بدلے میں کوئی اور زیور خریدوں جو قیمت میں زیادہ ہو، تو اس خرید وفروخت کا صحیح طریقہ کیا ہو گا؟ کیونکہ سونے کی لین دین میں برابر سرابر کا حکم ہے۔

جواب: صورت مسئولہ میں انگوٹھی کے بدلے جو سونے کا زیور خریدا جا رہا ہے، اگر اس میں سونے کی مقدار اتنی ہی ہے، جتنی انگوٹھی میں ہے، یعنی 4 گرام، لیکن اس زیور کی قیمت اس کی بنائی اور ڈھلائی کی وجہ سے زیادہ ہو، تو ایسی صورت میں شرعا اس معاملے کے درست ہونے کے لیے دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
1- انگوٹھی اور اس کے بدلے کے زیور میں سونا وزن کے اعتبار سے برابر ہو، اس میں کمی وبیشی سود کے زمرے میں آئے گی، خواہ اس زیور کی قیمت انگوٹھی سے زائد ہی ہو۔
2- جس مجلس میں یہ معاملہ طے پا رہا ہو، اس مجلس کے برخاست ہونے سے پہلے پہلے دونوں فریقین (خریدار اور فروخت کرنے والا) اپنے اپنے حصے کے سونے (زیور یا انگوٹھی) پر قبضہ کر لیں۔
لیکن اگر انگوٹھی کے بدلے جو زیور خریدا جا رہا ہے، اس میں سونا انگوٹھی میں موجود سونے سے زائد ہو، تو اس کمی بیشی کے ساتھ معاملہ کرنا سود کے زمرے میں آئے گا۔
اس کا متبادل جائز طریقہ یہ ہے کہ پہلے انگوٹھی کی قیمت لگوا کر اسے سنار کے ہاتھ فروخت کر دیا جائے اور اس حاصل شدہ قیمت میں مزید رقم ملا کر وہ سونے کا زیور خریدا جائے، البتہ یہ معاملہ کرتے وقت بھی سونے کا ادھار نہ کیا جائے، بلکہ مجلس عقد میں ہی سونے پر قبضہ کرلیا جائے، ورنہ یہ سود کے زمرے میں آئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

التجريد للقدوري: (كتاب البيوع، 2360/5، ط: دار السلام)
"مسألة 587: بيع الدينار بدينارين ودرهم، والدرهم بدرهمين ودينار.
قال أصحابنا: إذا باع دينارًا بدينارين ودرهم، ودرهمًا بدرهمين ودينار، جاز البيع، وخولف بين البدلين، فإذا باع عشرة دراهم ودينارًا بأحد عشر درهمًا: قسمت على الاعتبار، فكانت العشرة بمثلها، والدراهم بالدينار".

الفتاوي الهندية: (كتاب الصرف، الباب الثاني، الفصل الأول في بيع الذهب و الفضة، 218/3، ط: دار الفکر)
"الدراهم والدنانير لا تتعينان في عقود المعاوضات عندنا ولا يجوز بيع الذهب بالذهب ولا الفضة بالفضة إلا مثلا بمثل تبرا كان أو مصنوعا أو مضروبا... ويجوز بيع الفضة بالفضة والذهب بالذهب إذا اعتدل البدلان في كفة الميزان".

و فیها ایضاً: (218/3، ط: دار الفكر)
"ويحتاج إلى شرط رابع في عقد الصرف إذا كان المعقود عليه من جنس واحد وهو التساوي في الوزن كذا في خزانة المفتين".

البحر الرائق: (كتاب الصرف، 209/6، ط: دار الكتاب الإسلامي)
"الرابع التساوي في الوزن إن كان المعقود عليه من جنس واحد فإن تبايعا ذهبا بذهب أو فضة بفضة مجازفة لم يجز".

الدر المختار: (كتاب البيوع، باب الصرف، 257/5، ط: دار الفكر)
"(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) - أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا".

الدر المختار مع رد المحتار: (كتاب البيوع، باب الصرف، 265/5، ط: دار الفكر)
"(و) صح (بيع من عليه عشرة دراهم) دين (ممن هي له) أي من دائنه فصح بيعه منه (دينارا بها) اتفاقا، وتقع المقاصة بنفس العقد إذ لا ربا في دين سقط (أو) بيعه (بعشرة مطلقة) عن التقييد بدين عليه (إن دفع) البائع (الدينار) للمشتري (وتقاصا العشرة) الثمن (بالعشرة) الدين أيضا استحسانا.
[مطلب في حكم بيع فضة بفضة قليلة مع شيء آخر لإسقاط الربا]
[تنبيه]
في الهداية: ولو تبايعا فضة بفضة أو ذهبا بذهب ومع أقلهما شيء آخر تبلغ قيمته باقي الفضة جاز البيع من غير كراهة، وإن لم تبلغ فمع الكراهة، وإن لم يكن له قيمة لا يجوز البيع لتحقق الربا إذ الزيادة لا يقابلها عوض فتكون ربا اه".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 663 Jun 28, 2022
kum soney gold wali angothi k badle / badley zyada soney / gold ka zewar kharidne ka hokom / hokum or sharai / sharie tariqa

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.