سوال:
مفتی صاحب ! میں نے سنا ہے کہ اگر کسی شخص کی صرف بیٹیاں ہوں، تو اس صورت میں بہن بھائیوں کو بھی حصہ ملے گا اور اگر بیٹے اور بیٹیاں دونوں ہوں، تو بہن بھائیوں کو حصہ نہیں ملے گا، آپ صحیح وضاحت فرمادیں
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی کی صرف مذکر یا مذکر اور مؤنث دونوں اولادیں ہوں، تو اس صورت میں میت کے بہن بھائیوں کو میت کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
اور اگر صرف مؤنث اولاد ہو، تو اس صورت میں میت کے بہن بھائیوں کو بھی میت کی میراث میں سے حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ....الخ
الھندیۃ: (448/6، ط: دار الفکر)
وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان، كذا في الاختيار شرح المختار وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين، كذا في التبيين.
و فیھا ایضاً: (450/6، ط: دار الفکر)
الخامسة - الأخوات لأب وأم۔۔۔ولهن الباقي مع البنات أومع بنات الابن، كذا في الكافي۔۔۔ويسقط الإخوة والأخوات بالابن وابن الابن وإن سفل
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی