سوال:
لسلام علیکم، مفتی صاحب! میرے دو بچے ہیں، میری شادی کو چھ سال کا عرصہ گزرچکا ہے، میری بیوی مجھے سات ماہ پہلے چھوڑ کر جاچکی ہے، لیکن اس دوران ہمارا رابطہ رہا، ایک مرتبہ دوران گفتگو میرے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوگئے"آپ آزاد ہیں، شادی کرلیے گا" کیا ان الفاظ کے بعد طلاق واقع ہوجاتی ہے، اگر ہاں، تو رجوع کرنے کے لیے دوبارہ نکاح کرنا لازم ہے؟ اگر ان الفاظ کی ادائیگی کے تین ماہ بعد جنسی طلاق ہوا ہو، تو وہ ناجائز ہے؟ اور اب لڑکی کو کتنے ماہ عدت گزارنی ہوگی؟ براہ کرم ان تمام سوالات کے جوابات عنایت فرمائیں۔
جواب: 1: پوچھی گئی صورت میں مذکورہ الفاظ "آپ آزاد ہیں شادی کرلیے گا" سے ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی، جس کا حکم یہ ہے کہ عدت کے اندر بغیر نکاح کے رجوع کرنا جائز ہے، لیکن اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا گیا ہو، اور عدت گزر جانے کی صورت میں دوبارہ اس کے ساتھ رہنا چاہتے ہوں، تو نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے۔
2: اگر جنسی تعلق عدت کی مدت کے دوران قائم ہوا ہو، تو اسی عمل سے ہی رجوع ہوگیا تھا، اور اگر جنسی تعلق عدت یعنی مکمل تین ماہواریاں گزر جانے کے بعد قائم ہوا تھا، تو یہ عمل ناجائز اور حرام ہے، جس سے توبہ کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوي الهندية: (468/1، ط: دار الفكر)
الرجعة إبقاء النكاح على ما كان ما دامت في العدة كذا في التبيين وهي على ضربين: سني وبدعي (فالسني) أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها شاهدين ويعلمها بذلك فإذا راجعها بالقول نحو أن يقول لها: راجعتك أو راجعت امرأتي ولم يشهد على ذلك أو أشهد ولم يعلمها بذلك فهو بدعي مخالف للسنة والرجعة صحيحة وإن راجعها بالفعل مثل أن يطأها أو يقبلها بشهوة أو ينظر إلى فرجها بشهوة فإنه يصير مراجعا عندنا إلا أنه يكره له ذلك ويستحب أن يراجعها بعد ذلك بالإشهاد كذا في الجوهرة النيرة.
کذا فی فتاویٰ دار العلوم کراتشي: رقم الفتوي: 74/325
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی