سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک شخص نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھائی کہ "اپنی بیوی کے پاس نہیں جاؤں گا" جب کے دل میں اُس کا کوئی ایسا ارادہ نہیں تھا، بس لوگوں کو دکھانے کے لیے قسم کھائی تھی، اب وہ بیوی کے پاس واپس جانا چاہ رہا ہے، تو اس کا کوئی کفارہ ہے یا صرف توبہ ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر قسم کھانے سے قسم منعقد ہوجاتی ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں شوہر کا قسم کھا کر یہ کہنا کہ "اپنی بیوی کے پاس نہیں جاؤں گا" شرعاً "ایلاء" ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ شخص اپنی بیوی کے ساتھ قسم کھانے کے دن سے لے کر چار ماہ کی مدت کے دوران جماع (ازدواجی تعلق) نہیں کرے گا، تو چار ماہ کی مدت کے بعد اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی اور اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی۔
لیکن اگر یہ شخص چار ماہ کی مدت کے دوران اپنی بیوی سے جماع کرلیتا ہے، تو اس سے ایلاء کا حکم ساقط ہوجائے گا، البتہ قسم توڑنے کی وجہ سے اس شخص کے ذمہ قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا۔
قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو صبح شام (دو وقت) پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے یا دس مساکین میں سے ہر مسکین کو پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت دیدی جائے، یا دس مسکینوں کو ایک ایک جوڑا کپڑوں کا دیدیا جائے، اور اگر قسم کھانے والا غریب ہے اور مذکورہ امور میں سے کسی پر اس کو استطاعت نہیں ہے، تو پھر کفارہ قسم کی نیت سے مسلسل تین دن تک روزے رکھنے سے بھی قسم کا کفارہ ادا ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم : (المائدة، الاية: 89)
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ o
و قوله تعاليٰ: (البقرة، الاية: 226- 227)
لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ o وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ o
الهداية: (باب الايلاء، 411/2، ط: رحمانية)
واذا قال الرجل لامرأته: "والله لا أقربك" أو قال: والله لا أقربك أربعة أشهر فهو مول لقوله تعالي: {لِلَّذِیۡنَ یُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِہِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَۃِ اَشۡہُرٍ} [البقرة: 226] الآية، "فإن وطئها في الاربعة الاشهر حنث في يمينه ولزمته الكفارة"، لان الكفارة موجب الحنث "وسقط الايلاء" لأن اليمين ترتفع بالحنث "وان لم يقربها حتى مضت أربعة أشهر بانت منه بتطليقة".
الدر المختار مع رد المحتار: (713/3، ط: دار الفكر)
وقال العيني: وعندي أن المصحف يمين لا سيما في زماننا. وعند الثلاثة المصحف والقرآن وكلام الله يمين.
(قوله: وقال العيني): عبارته: وعندي لو حلف بالمصحف أو وضع يده عليه وقال: وحق هذا فهو يمين ولاسيما في هذا الزمان الذي كثرت فيه الأيمان الفاجرة ورغبة العوام في الحلف بالمصحف اه_ وأقره في النهر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی