سوال:
میری عمر 50 سال سے زائد ہے میں اپنی پڑوسی کے ایک بچے کو پردہ میں قاعدہ پڑھاتی ہوں اس کی عمر تقریباً چودہ سال ہے، ہم امریکہ میں رہتے ہیں یہاں پر مسجد یا کوئی قرآن پڑھانے والا مشکل سے ملتا ہے، بچے کی والدہ اکیلی ہیں اور جوب بھی کرتی ہیں اس لیے وہ بچے کو مسجد میں نہیں لے جاسکتی تو کیا میرا اس بچے کو قاعدہ یا قرآن پاک پڑھانا درست ہے؟
جواب: 1- واضح رہے کہ لڑکا جب پندرہ سال کا ہو جائے، تو شرعا وہ بالغ شمار ہوتا ہے، اتنی عمر کے لڑکوں میں عموماً خواتین کی طرف میلان کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، لہذا ایسے لڑکوں سے نامحرم خواتین کو پردہ کرنا شرعاً واجب ہے۔
2- کسی عورت کا بالغ نامحرم لڑکے سے بلا ضرورت شدیدہ بات چیت کرنا، پڑھنا پڑھانا اور خاص طور پر اس طرح کا معمول بنا لینا کہ جس میں عورت کا نامحرم لڑکے کے ساتھ مستقل میل جول ہو، بے تکلف بات چیت ہوتی ہو، جیسا کہ تعلیم وتعلم میں ایسا ہوتا ہی ہے، شرعا ناجائز ہے۔
اور خاص طور پر قرآن کریم کی تعلیم میں تو تجوید کے ساتھ پڑھنے میں حروف کے حسن ادائیگی کے لیے آواز میں اتار چڑھاؤ، ترنم اور نغمگی کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جبکہ عورت کی آواز میں فطری طور پر لطافت اور لچک ہوتی ہے، اس سے نامحرم مرد کا فتنے میں مبتلا ہونے کا غالب گمان ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
3- جن بڑی عمر کی خواتین کے لیے پردے کے احکام میں نرمی آئی ہے، اس سے مراد ایسی بڑی عمر کی خواتین ہیں، جو بوڑھی ہو چکی ہوں، مردوں کی طرف جنسی میلان نہ ہونے کی وجہ سے ان کے نکاح کی عمر گزر چکی ہو، تو ایسی بوڑھی عورت کے لیے بغیر زیب وزینت کے نامحرم مرد کے سامنے آنا شرعا ممنوع نہیں ہے، لیکن پردے کے دوسرے احکام مثلاً بلا تکلف میل جول رکھنا، نامحرم کے ساتھ خلوت وتنہائی اختیار کرنا وغیرہ ان کے لیے بھی شرعا ممنوع ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں آپ کو اپنے پڑوسی کے بالغ لڑکے سے پردہ کرنا واجب ہے، اس کے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹے کو قرآن کریم کی تعلیم دلانے کے لیے کسی مرد قاری کا انتظام کریں، اگر بسہولت ایسا انتظام نہ ہو سکے، تو آج کل آن لائن قرآن کریم پڑھانے والے قراء کرام بسہولت دستیاب ہوتے ہیں، مجبوری کی صورت میں ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النور، الآیة: 30- 31)
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ o وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ....الخ
أحکام القرآن للجصاص: (النور)
"قال الجصاص: تحت قوله: "ولا یضربن بأرجلهن لیعلم ما یخفین من زینتهن" الآیة: وفیه دلالة علی أن المرأة منهیة عن رفع صوتها بالکلام بحیث یسمع ذلک الأجانب، إذ کان صوتها أقرب إلی الفتنة عن صوت خلخالها".
حجة الله البالغة: (ذکر العورات، 328/2)
"اعلم أنه لما کان الرجال یهیّجهم النظر إلی النساء علی عشقهن والتوجه بهن، ویفعل بالنساء مثل ذلک، وکان کثیرًا ما یکون ذلک سببًا؛ لأن یبتغي قضاء الشهوۃ منهن علی غیر السنة الراشدة، کاتباع من ہي في عصمة غیرہ، أو بلا نکاح، أو غیر اعتبار کفاءۃ، والذي شوهد من هذا الباب یغني عما سطر في الدفاتر، اقتضت الحکمة أن یسد هذا الباب".
الأشباہ و النظائر: (147/1)
"درأ المفاسد أولي من جلب المصالح، فإذا تعارضت مفسدة ومصلحة قدم دفع المفسدة غالباً".
الدر المختار: (مطلب في ستر العورۃ، 79/2)
"وتمنع المرأة الشابة من کشف الوجه بین الرجال لا لأنه عورۃ؛ بل لخوف الفتنة".
رد المحتار: (617/1، ط: دار الفكر- بيروت)
"ومفهومه: جوازه على العجوز، بل صرحوا بجواز مصافحتها عند أمن الشهوة".
و فيه أيضًا: (368/6، ط: دار الفكر- بيروت)
"في الشفاء عن الكرميني: العجوز الشوهاء والشيخ الذي لايجامع مثله بمنزلة المحارم".
و فیه ایضاً: (مطلب في ستر العورة: 1/ 406، ط: دار الفکر- بیروت)
وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير ، وكذا في الإمداد ؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي : ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع : ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها ، لأن ذلك ليس بصحيح ، فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك ، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم ، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة .ا ه .قلت : ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی