سوال:
ایک شخص جنرل سٹور کی دکان کھولنے کا خواہشمند ہے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے دکان ذاتی پیسوں سے تعمیر کی دکان تیار ہے بس سامان لانے کی دیر ہے، مگر اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس نے ایک دوسرے شخص سے اس کے متعلق بات کی، اس شخص نے انہیں تسلی دی اور کہا بھائی کوئی مسئلہ نہیں میں آپ کو پیسے دے دیتا ہوں آپ کو پیسوں کے متعلق فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ پیسے (مثلاً پانچ لاکھ روپے) رکھ لیجئے سامان منگوائیں اور بس دکان کھولیے لیکن شرط یہ ہے کہ میں منافع میں آپ کے ساتھ شریک ہوں گا جتنا منافع ہوگا ہم دونوں آپس میں برابر تقسیم کریں گے، تو جنرل سٹور والے نے کہا صحیح ہے مگر چونکہ میں نے دکان بنائی ہے جس پر تقریباً ڈھائی تین لاکھ روپے خرچہ کیا ہے تو میں ہر مہینے کا کرایہ (جو بھی آپس میں طے ہو مثلاً پانچ ہزار روپے) بھی لوں گا اس پر پیسے دینے والے شخص نے بولا بالکل کرایہ آپ کو ضرور دوں گا۔
واضح رہے کہ پیسے دینے والے نے صرف پیسے ہی دیئے ہیں باقی دکان سنبھالنا بالکلیہ جنرل سٹور والے کے ذمہ ہے۔ اب دریافت طلب امر یہ کہ:
1. آیا اس طرح کا معاملہ کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟
2. نفع میں کمی بیشی کا معاملہ باہمی رضا مندی سے کسی بھی وقت طے کرنا درست ہے یا نہیں؟ مثلاً جنرل سٹور والا کہے کہ میں آپ کو کل نفع کا نصف کی بجائے تہائی یا مثلاً چوتھائی دوں گا اگرچہ پہلے میں نصف پر راضی ہوا تھا۔
3. خدانخواستہ اگر نقصان ہوجائے تو یہ نقصان دونوں میں سے کس کو برداشت کرنا پڑے گا یا پھر دونوں برداشت کریں گے؟
4. کیا فریقین میں سے کوئی ایک خود کو نقصان سے بری کر سکتا ہے یا نہیں؟
5. نقصان کی شرح کس پر کتنی عائد ہوگی؟
6. دکان کا کرایہ جنرل سٹور والا لے سکتے ہے یا نہیں؟
جواب: 1: سوال میں ذکر کردہ طریقہ مضاربت کا ہے، مضاربت وہ عقد ہے جس میں ایک فریق کا سرمایہ اور دوسرے فریق کی محنت ہو، اور نفع میں دونوں فریق شریک ہوں۔
2: نفع کا تناسب ابتداء ہی میں باہمی رضامندی سے طے کرنا ضروری ہے، ابتدا میں نفع کا تناسب طے نہ کیا جائے تو اس سے عقد مضاربت فاسد ہوجاتا ہے۔
تاہم ایک خاص تناسب طے ہوجانے کے بعد باہمی رضامندی سے اس تناسب میں تبدیلی کرنا جائز ہے۔
5,4,3: اگر کاروبار میں نقصان مضارب (محنت کرنے والے فریق) کی تعدی یا کوتاہی کی وجہ سے ہو تو مضارب اس کا ذمہ دار ہوگا، لیکن اگر نقصان مضارب کی تعدی کے بغیر ہو تو اولا اس کی تلافی کاروبار میں ہونے والے نفع سے کی جائے گی، اور اگر نقصان كا حجم اس سے بڑا ہو اور منافع سے اس نقصان کی تلافی نہ ہوتی ہو تو وہ نقصان اصل سرمائے میں سے سمجھا جائے گا، اس کی ذمہ داری مضارب پر نہیں ہے، جب تک کہ اس کی تعدی یا کوتاہی ثابت نہ ہو۔
6: اگر رب المال (سرمایہ فراہم کرنے والا فریق) نقصان سے بری ہونے کی شرط لگاتا ہے تو یہ شرط لغو ہے، اس شرط پر نہ تو عمل کیا جائے گا اور نہ ہی اس کی وجہ سے عقدِ مضاربت فاسد ہوگا، بلکہ یہ شرط خود فاسد ہوجائے گی۔
البتہ اگر مضارب تعدی اور کوتاہی نہ ہونے کی صورت میں نقصان سے بری ہونے کی شرط لگاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیوں کہ کوتاہی نہ ہونے کی صورت میں مضارب پر ویسے بھی نقصان کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔
7: دکان کا کرایہ اگر رب المال کی اجازت سے وصول کرے تو ایک قول کے مطابق اس کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (201/3، ط: دار احياء التراث العربي)
وكل شرط يوجب جهالة في الربح يفسده لاختلال مقصوده، وغير ذلك من الشروط الفاسدة لا يفسدها، ويبطل الشرط كاشتراط الوضيعة على المضارب.
المعايير الشرعية: (المعيار الشرعي، رقم: 13، ص: 370)
٤/٤ المضاربة من عقود الأمانات، والمضارب أمين على ما في يده من مال المضاربة إلا إذا خالف شروط عقد الأمانة فتعدى على مال المضاربة، أو قصّر في إدارةأموال المضاربة، أوخالف شروط عقد المضاربة، فإذا فعل ً واحدا أو أكثر من ذلك فقد أصبح ضامنًا لرأس المال.
و فيها أيضا: (ص: 372)
٨/٣ يجب أن يتم الاتفاق على نسبة توزيع الربح عند التعاقد، كما يجوز باتفاق الطرفين أن يغيرا نسبة التوزيع في أي وقت مع بيان الفترة التي يسري عليها هذا الاتفاق.
الدر المختار مع رد المحتار: (521/5، ط: دار الفكر)
فصل لا يعقد وكيل البيع والشراء والإجارة والصرف والسلم ونحوها (مع من ترد شهادته له) للتهمة وجوزاه بمثل القيمة (إلا من عبده ومكاتبه إلا إذا أطلق له الموكل) كبع ممن شئت (فيجوز بيعه لهم بمثل القيمة) اتفاقا (كما يجوز عقده معهم بأكثر من القيمة) اتفاقا: أي بيعه لا شراؤه بأكثر منها اتفاقا، كما لو باع بأقل منها بغبن فاحش لا يجوز اتفاقا، وكذا بيسير عنده خلافا لهما ابن ملك وغيره. وفي السراج: لو صرح بهم جاز إجماعا إلا من نفسه وطفله وعبده غير المديون.
وفي رد المحتار تحته: (قوله إلا من نفسه) وفي السراج: لو أمره بالبيع من هؤلاء فإنه يجوز إجماعا إلا أن يبيعه من نفسه أو ولده الصغير أو عبده ولا دين عليه فلا يجوز قطعا وإن صرح به الموكل اه منح. الوكيل بالبيع لا يملك شراءه لنفسه؛ لأن الواحد لا يكون
الفتاوي الهندية: (288/4، ط: دار الفكر)
(وأما) (حكمها) فإنه أولا أمين وعند الشروع في العمل وكيل وإذا ربح فهو شريك وإذا فسدت فهو أجير وإذا خالف فهو غاصب.
احسن الفتاوي: (248/7، ط: سعید)
امداد الاحکام: (304/3، ط: مکتبة دار العلوم كراتشي)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی