عنوان: کیا نکاح کے درست ہونے کے لیے گواہوں کا نکاح کرنے والی عورت کو جاننا ضروری ہے؟ (9797-No)

سوال: میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے چکا ہوں ہم نے حلالہ کا فیصلہ کیا تاکہ ہم دوبارہ نکاح کرسکیں میں نے اپنے قریبی دوست کو حال احوال سنائے اور اس سے حلالہ کے متعلق مدد طلب کی وہ صرف ہمارے مستقبل خراب نظر آنے کی وجہ سے اللہ پاک کی رضا کے خاطر اور دوست ہونے کے ناطہ عارضی اور خفیہ نکاح کے لئے رضامند ہوگیا اور حلالہ کے لئے میری بیوی بھی اپنی مرضی سے رضامند ہوگئی میرا اس پر کوئی دباؤ نہیں تھا، لہذا میری بیوی نے مجھے اپنے نئے نکاح کے لئے وکیل مقرر کیا اور مزید یہ بھی اجازت دی کہ آپ اپنے دوست کو بھی میرے نکاح کا وکیل مقرر کرسکتے ہیں اور وہ میرا نکاح اپنے ساتھ کرسکتا ہے اس دوران کوئی گواہ موجود نہ تھا کیوں کہ اس تمام معاملہ کے متعلق صرف مجھے اور میری بیوی اور میرے دوست کو علم تھا۔
پھر میں نے اپنے دوست کو اپنی بیوی کا نام والد صاحب کے نام کے ساتھ کہا کہ اس نے آپ کو اپنے نکاح کا وکیل مقرر کیا ہے، لہذا اب آپ وکیل کی حیثیت سے اپنا نکاح اس کے ساتھ کرسکتے ہیں اسکی طرف سے آپ کو اجازت ہے۔
اب مذکورہ بالا تفصیل کے بعد میرے دوست نے دو گواہوں کے سامنے کہا کہ "میں نے بطور وکیل فلاں بنت فلاں کو اتنے شرعی حق مہر کے عوض اپنے نکاح میں بطور بیوی قبول کیا" ایک بات واضح کردوں کہ میری بیوی شرعی پردہ کرتی ہے اس نے نہ کبھی خود میرے دوست سے بات کی ہے اور نہ ہی میرے دوست نے اس سے کبھی بات کی ہے اور میری طرف سے دونوں میں کسی پر کوئی دباؤ نہ نکاح کے لئے تھا اور نہ ہی نکاح اور ہمبستری کے بعد طلاق کے لئے، البتہ ہم سب کی یہ نیت ضرور تھی۔
نوٹ: نکاح کے وقت وہ دونوں گواہ بھی اجنبی تھے نہ ان کو میرے دوست کے متعلق اور نہ ہی میری بیوی کے متعلق کوئی علم تھا، البتہ ان کے سامنے لڑکی کا نام، اس کے والد کا نام اور اسکے دادا کام نام بھی لیا گیا لیکن لڑکی وہاں موجود نہیں تھی، پھر میرے دوست نے مجھے اطلاع دی کہ میں نے دو گواہوں کے سامنے نکاح قبول کرلیا ہے میں نے اپنی گزشتہ بیوی کو بھی بتادیا کہ آپ کا نکاح ہوگیا ہے، یہ نکاح کا پورا معاملہ خفیہ طریقہ سے انجام دیا گیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ نکاح کے وقت صرف لڑکا موجود تھا لڑکی نہیں لڑکی نے جب اس لڑکے کو اپنے نکاح کے لئے وکیل مقرر کرنے کے لئے مجھ سے کہا اس وقت کوئی گواہ موجود نہ تھا نکاح سے پہلے لڑکا اور لڑکی کی ملاقات اور رابطہ زندگی میں کبھی نہیں ہوا تھا امید ہے تفصیل آپ حضرات کو سمجھ آگئی ہوگی۔ آیا کہ یہ نکاح صحیح ہوا یا نہیں؟ اگر نہیں تو پہر مہربانی فرماکر اس میں جو غلطی کی گئی ہے جس کی وجہ سے نکاح صحیح نہیں ہوا اس کے متعلق نشاندہی فرمادیں۔

جواب: پوچهی گئی صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوا، کیوں کہ گواہوں کے لیے نکاح میں دی جانے والی عورت کو بخوبی پہچاننا ضروری ہے، تاکہ کسی قسم کا کوئی اشتباہ باقی نہ رہے۔
اگرگواہ اس عورت کو اچھی طرح جانتے ہوں تو نکاح کے وقت اس کا نام اور اس کے والد کا نام ذکر کرنا کافی ہوتا ہے، لیکن اگر گواہ نہ جانتے ہوں تو پہچان کرانے کے لیے اس عورت کا نام، اس کے والد کا نام، اس کے دادا کا نام اوراس کے متعلق دیگر ضروری معلومات ذکر کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ اچھی طرح پہچان ہو سکے، کیونکہ نکاح میں گواہی قائم کرنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ لوگوں کو یہ کو معلوم ہوجائے کہ فلاں عورت فلاں مرد کے نکاح میں آگئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

مسند أبي داود الطيالسي: (رقم الحدیث: 1566، ط: دار هجر)
عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا نكاح إلا بولي، وأيما امرأة نكحت بغير ولي فنكاحها باطل باطل باطل، فإن لم يكن لها ولي فالسلطان ولي من لا ولي له.

المعجم الأوسط: (رقم الحدیث: 6366، ط: دار الحرمين)
عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا نكاح إلا بولي وشاهدي عدل.

رد المحتار: (21/3، ط: دار الفكر)
[تنبيه]
أشار بقوله فيما مر ولا المنكوحة مجهولة إلى ما ذكره في البحر هنا بقوله: ولا بد من تمييز المنكوحة عند الشاهدين لتنتفي الجهالة، فإن كانت حاضرة منتقبة كفى الإشارة إليها والاحتياط كشف وجهها. فإن لم يروا شخصا وسمعوا كلامها من البيت، إن كانت وحدها فيه جاز، ولو معها أخرى فلا لعدم زوال الجهالة وكذا إذا وكلت بالتزويج فهو على هذا. اه. أي إن رأوها أو كانت وحدها في البيت يجوز أن يشهدوا عليها بالتوكيل إذا جحدته، وإلا فلا لاحتمال أن الموكل المرأة الأخرى، وليس معناه أنه لا يصح التوكيل بدون ذلك وأنه يصير العقد عقد فضولي فيصح بالإجارة بعده قولا أو فعلا لما علمته آنفا فافهم. ثم قال في البحر: وإن كانت غائبة ولم يسمعوا كلامها بأن عقد لها وكيلها فإن كان الشهود يعرفونها كفى ذكر اسمها إذا علموا أنه أرادها، وإن لم يعرفوها لا بد من ذكر اسمها واسم أبيها وجدها. وجوز الخصاف النكاح مطلقا، حتى لو وكلته فقال بحضرتهما زوجت نفسي من موكلتي أو من امرأة جعلت أمرها بيدي فإنه يصح عنده. قال قاضي خان: والخصاف كان كبيرا في العلم يجوز الاقتداء به وذكر الحاكم الشهيد في المنتقى كما قال الخصاف. اه.
قلت: في التتارخانية عن المضمرات أن الأول هو الصحيح وعليه الفتوى، وكذا قال في البحر في فصل الوكيل والفضولي أن المختار في المذهب خلاف ما قاله الخصاف، وإن كان الخصاف كبيرا. اه. وما ذكروه في المرأة يجري مثله في الرجل ففي الخانية قال الإمام ابن الفضل إن كان الزوج حاضرا مشارا إليه جاز ولو غائبا فلا ما لم يذكر اسمه واسم أبيه وجده، قال والاحتياط أن ينسب إلى المحلة أيضا، قيل له فإن كان الغائب معروفا عند الشهود؟ قال، وإن كان معروفا لا بد من إضافة العقد إليه، وقد ذكرنا عن غيره في الغائبة إذا ذكر اسمها لا غير وهي معروفة عند الشهود وعلم الشهود أنه أراد تلك المرأة يجوز النكاح. اه.
والحاصل أن الغائبة لا بد من ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وإن كانت معروفة عند الشهود على قول ابن الفضل، وعلى قول غيره يكفي ذكر اسمها إن كانت معروفة عندهم، وإلا فلا وبه جزم صاحب الهداية في التجنيس وقال لأن المقصود من التسمية التعريف وقد حصل وأقره في الفتح والبحر. وعلى قول الخصاف يكفي مطلقا، ولا يخفى أنه إذا كان الشهود كثيرين لا يلزم معرفة الكل بل إذا ذكر اسمها وعرفها اثنان منهم كفى والظاهر أن المراد بالمعرفة أن يعرفها أن المعقود عليها هي فلانة بنت فلان الفلاني لا معرفة شخصها، وإن ذكر الاسم غير شرط، بل المراد الاسم أو ما يعينها مما يقوم مقامه لما في البحر: لو زوجه بنته ولم يسمها وله بنتان لم يصح للجهالة بخلاف ما إذا كانت له بنت واحدة إلا إذا سماها بغير اسمها ولم يشر إليها فإنه لا يصح كما في التنجيس. اه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 844 Aug 25, 2022
kia nikah k drust / sahi hone k /liye gawaho ka naam nikah karne wali orat / ourat ko janna zarori hay?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.