سوال:
۱) ہماری بہن کی کوئی اولاد نہیں ہے اور ان کے والدین کا بھی ان کی زندگی میں انتقال ہو گیا ہے، ورثاء میں شوہر، بھائی اور بہن ہیں، ان کے انتقال کے بعد ان کی وراثت میں شوہر کے علاوہ اور کون کون وارث ہوں گے؟
۲) اسی طرح اگر بہن اپنے بھائی کے بیٹے کے لیے وصیت کرے تو کیا یہ وصیت کرنا درست ہوگا؟
جواب: ۱) پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کی بہن کے انتقال کے وقت ان کے شوہر، بہن اور بھائی موجود ہوں تو آپ کی بہن کی میراث ان سب میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگی۔
۲) آپ کی بہن اپنے بھتیجے کے حق میں اپنے متروکہ مال کی ایک تہائی (1/3) تک وصیت کر سکتی ہیں، البتہ اپنی زندگی میں وہ خود مختار ہیں، اپنے بھتیجے کو جتنا دینا چاہیں، دے سکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ....الخ
و قوله تعالي: (النساء، الایة: 176)
وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ۔۔۔۔الخ
الجوهرۃ النیرۃ: (کتاب الوصایا، 287/2، ط: المطبعة الخيرية)
’’الوصية مشروعة بالكتاب والسنة ۔۔ الوصية غير واجبة وهي مستحبة أي للأجنبي دون الوارث ولا تجوز الوصية للوارث إلا أن يجيزها الورثة يعني بعد موته وهم أصحاء بالغون لأن الامتناع لحقهم فيجوز بإجازتهم ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة يعني بعد موته وهم أصحاء بالغون ملخصاً.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی