عنوان: "تمہارے سوا دنیا کی تمام عورتیں مجھ پر حرام ہیں"، "میں اپنی بیوی کو طلاق دوں گا" "وہ مجھ پر طلاق ہے" کہنے کا حکم (9841-No)

سوال: اگر کوئی شادی شدہ شخص کسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوکر اس لڑکی کو خوش کرنے کے لئے یہ کہے کہ "تمہارے سوا دنیا کی تمام عورتیں مجھ پر حرام ہیں" تو اس کا اپنی بیوی سے نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟
اور وہ اس لڑکی کو خوش کرنے کے لئے فون پر اس طرح کہے کہ "میں اپنی بیوی کو طلاق دوں گا" اور "وہ مجھ پر طلاق ہے" تو کیا نکاح باقی رہا کہ نہیں؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں شکریہ۔

جواب: سوال میں تین الگ الگ جملے بیان کر کے ان کا حکم پوچھا گیا ہے، چونکہ سوال میں یہ وضاحت نہیں گئی ہے کہ کونسا جملہ پہلے کہا گیا ہے اور کونسا بعد میں؟ یا یہ جملے الگ الگ مواقع پر کہے گئے ہیں یا ایک ساتھ کہے گئے ہیں؟ اگر ان جملوں کے کہنے کی ترتیب بیان کی جاتی، تو اس ترتیب کا حکم بیان کیا جاتا، لیکن چونکہ یہ وضاحت نہیں گئی ہے، اس لیے ذیل میں الگ الگ صرف ان جملوں کا حکم بیان کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے:
1- واضح رہے کہ طلاق کے سلسلے میں لفظ "حرام" عرفِ عام میں طلاق کے وقوع پذیر ہونے کے اعتبار سے طلاق صریح کا حکم رکھتا ہے، اسی وجہ سے بیوی کے متعلق لفظ "حرام" استعمال کرنے پر بغیر نیت کے بھی طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص کسی اجنبی عورت کو خوش کرنے کے لیے یہ الفاظ کہے: "تمہارے سوا دنیا کی تمام عورتیں مجھ پر حرام ہیں"، تو چونکہ دنیا کی عورتوں میں اس کی بیوی بھی شامل ہے، لہذا مذکورہ جملہ کہتے ہی اس شخص کی بیوی پر ایک طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور ان دونوں کا نکاح فورا ختم ہو جائے گا، اس کے بعد اگر وہ دوبارہ میاں بیوی کی طرح رہنا چاہیں، تو عدت کے اندر یا عدت کے بعد باہمی رضامندی سے نئے مہر و نکاح کے ساتھ رہ سکتے ہیں، ایسی صورت میں شوہر کے پاس آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔
2- "میں اپنی بیوی کو طلاق دوں گا"، اس جملے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ یہ جملہ طلاق نہیں ہے، بلکہ طلاق کا وعدہ ہے، لہذا صرف اس جملے کے کہنے سے اس شخص کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
3- اگر کوئی اپنی بیوی کے متعلق کہے: "وہ مجھ پر طلاق ہے"، تو اس جملے سے ایک طلاق رجعی واقع ہو گی اور عدت کے اندر اندر شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا، ایسی صورت میں مذکورہ شخص کو آئندہ صرف دو طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (299/3)
"وان کان "الحرام" فی الاصل کنایة یقع بها البائن لانه لما غلب استعماله فی الطلاق لم یبق کنایة ولذا لم یتوقف علی النیة او دلالة الحال".

الدر المختار مع رد المحتار: (252/3)
"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف.
(قوله: فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".

الجوهرة النیرة: (كتاب الرجعة، 50/2، ط. المطبعة الخيرية)
"(وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض) إنما شرط بقاؤها في العدة لأنها إذا انقضت زال الملك وحقوقه فلا تصح الرجعة بعد ذلك".

الفتاوى الهندية: (کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة و فيما تحل به المطلقة و ما يتصل به، 472/1، ط: دار الفکر)
"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها، وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 733 Oct 03, 2022
"tumhare siwa dunya ki tamam auratain / oratain mujh per haram hain","me / mein apni biwi ko talaq do ga" "wo mujh per talaq hay" kehne ka hokum / hokom

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.