عنوان: بیوہ عورت کا اپنے دیور، ساس اور بھابھی کے ہمراہ عمرہ کرنے کا حکم(9862-No)

سوال: میں عمرہ پر جانا چاہ رہا ہوں میرے ساتھ میری والدہ اور اہلیہ ہے۔ میری بھابھی جو کہ بیوہ ہیں، وہ بھی چاہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ اس گروپ میں چلی جائیں کیونکہ ان کی مالی حالت بھی ایسی نہیں کہ اپنے ساتھ بھائی یا چھوٹے بیٹے کو ساتھ لے جا سکیں تو کیا ایسی صورت میں وہ سفر میں میری والدہ اور اہلیہ کے ساتھ ہوتے ہوئے عمرہ پر جانے کی سعادت حاصل کرسکتی ہیں؟

جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کی بھابھی چونکہ آپ کی محرم نہیں ہیں، اس لئے ان کا اس طرح آپ کے ساتھ عمرہ پر جانا جائز نہیں ہے۔ عمرہ کی ادائیگی صاحب استطاعت کے لیے زندگی میں ایک مرتبہ سنت ہے، اس لئے اگر کبھی محرم کے ساتھ سفر کا انتظام ہو جائے تو آپ کی بھابھی اس کے ساتھ جا کر یہ سعادت حاصل کرسکتی ‏ہیں، لیکن اس سعادت کو حاصل کرنے کے لیے نامحرم کے ساتھ سفر کرنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

صحيح البخاري: (87/1، ط: طوق النجاۃ)‏
عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا تسافر ‏المرأة ثلاثا إلا مع ذي محرم (إلا ومعها ذو محرم)"‏‎.‎

بدائع الصنائع: (123/2، ط: دار الكتب العلمية)‏
‏(وأما) الذي يخص النساء فشرطان: أحدهما أن يكون معها زوجها أو محرم لها ‏فإن لم يوجد أحدهما لا يجب عليها الحج.‏‎ ‎وهذا عندنا،‎…‎ولنا) ما روي عن ‏ابن عباس - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: ألا ‏‏«لا تحجن امرأة إلا ومعها محرم» ، وعن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه ‏قال: «لا تسافر امرأة ثلاثة أيام إلا ومعها محرم أو زوج» ولأنها إذا لم يكن معها ‏زوج، ولا محرم لا يؤمن عليها إذ النساء لحم على وضم إلا ما ذب عنه، ولهذا ‏لا يجوز لها الخروج وحدها.‏
والخوف عند اجتماعهن أكثر، ولهذا حرمت الخلوة بالأجنبية، وإن كان معها ‏امرأة أخرى، والآية لا تتناول النساء حال عدم الزوج، والمحرم معها؛ لأن المرأة لا ‏تقدر على الركوب، والنزول بنفسها فتحتاج إلى من يركبها، وينزلها، ولا يجوز ‏ذلك لغير الزوج، والمحرم فلم تكن مستطيعة في هذه الحالة فلا يتناولها النص‎.‎

بدائع الصنائع: (124/2، ط: دار الكتب العلمية)
ثم صفة المحرم أن يكون ممن لا يجوز له نكاحها على التأبيد إما بالقرابة، أو ‏الرضاع، أو الصهرية؛ لأن الحرمة المؤبدة تزيل التهمة في الخلوة، ولهذا قالوا: إن ‏المحرم إذا لم يكن مأمونا عليه لم يجز لها أن تسافر معه‎.‎

رد المحتار: (472/2، ط: دار الفکر)‏
‏(قوله والعمرة في العمر مرة سنة مؤكدة) أي إذا أتى بها مرة فقد أقام السنة غير ‏مقيد بوقت‎.‎

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1257 Oct 12, 2022
bewa orat ka apne dewar, saas or bhabhi k hamrah umra karne ka hokom /hokum?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Hajj (Pilgrimage) & Umrah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.