سوال:
میرے والد مرحوم کی دو شادیاں تھیں، پہلی بیوی سے ایک بیٹی اور دوسری سے ہم دو بھائی ہیں، میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہی کراچی میں ایک پلاٹ اپنی پہلی بیوی کے نام کاغذات میں کردیا اور کراچی میں ان کو وہ پلاٹ دکھا کر کہا کہ یہ آپ کا پلاٹ ہے، والد صاحب کے انتقال کے بعد ہم نے ان سے اس پلاٹ میں حصہ لینا چاہا کہ بحیثیت والد صاحب کی جائیداد کے ہمیں اس سے حصہ دیجئے تو انہوں نے انکار کردیا کہ یہ صرف میرا پلاٹ ہے اور میں اسے اپنی بیٹی کے نام کرکے اس کو دونگی۔
لہذا دو باتیں معلوم کرنی ہیں کہ شرعا ہم اپنی اس والدہ سے پلاٹ میں سے بطور والد صاحب کے ترکہ میراث کے حقدار ہیں اور دوسری بات یہ کہ کیا ان کا یہ کہنا کہ "میں یہ فقط اپنی بیٹی کے نام کرونگی" شرعاً صحیح ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر آپ کے والد نے پہلی بیوی کے نام مکان کرنے کے ساتھ ساتھ اس مکان کو پہلی بیوی کے قبضے اور تصرف میں دے دیا تھا، تو یہ مکان شرعی طور پر آپ کے والد کی پہلی بیوی کا تصور کیا جائے گا، اور پہلی بیوی کے انتقال کے بعد ان کے تمام شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا، اس صورت میں آپ کے والد کی پہلی بیوی کی جائیداد میں دوسری بیوی اور ان کی اولاد (آپ کی والدہ اور آپ دونوں بھائیوں) کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
اور اگر آپ کے والد نے پہلی بیوی کو قبضہ نہیں دیا تھا، صرف نام کیا تھا، تو مکان آپ کے والد کی ہی ملکیت شمار ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء (دونوں بیویوں اور ان کی اولادوں) میں تقسیم ہوگا، اس صورت میں آپ کی سگی والدہ اور آپ دونوں بھائیوں کو بھی اس مکان میں سے حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (689/5، ط: دار الفکر)
بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة
الھندیة: (378/4، ط: دار الفکر)
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار،هكذا في الفصول العمادية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی