سوال:
کیا تکبیر کے وقت "قد قامت الصلوٰۃ" تک امام کا مقتدیوں کی طرف رُخ کرکے صف کا معائنہ کرنا سنت طریقہ ہے؟
جواب: امام کو صف بندی کے لئے "قد قامت الصلوٰۃ" کہنے کے وقت تک مقتدیوں کی طرف منہ کرکے کھڑا ہونے کا نہ حکم دیا گیا ہے اورنہ ہی یہ سنّت ہے، البتہ صفیں سیدھی کرانا امام کے لئے سنّت ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انتہائی تاکید اور اہتمام کے ساتھ صفیں درست فرمایا کرتے تھے، حدیث شریف میں ہے:
"حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف اپنے چہرہ مبارک سے متوجہ ہوئے اور تین مرتبہ یہ جملہ فرمایا: "أقيموا صفوفكم" (اپنی صفوں کو برابرکرو)، الله كی قسم! تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے کے مخالف کردیں گے"۔ (سنن أبي داؤد: حديث نمبر:662)
ترمذی شریف کی ایک حدیث کے تحت ہے:
"حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک آدمی کو صفیں سیدھی کرنے کے لیے مقرر فرماتے تھے اور اس وقت تک تکبیر نہ کہتے جب تک انہیں بتا نہ دیا جاتا کہ صفیں سیدھی ہوگئی ہیں"۔ (سنن الترمذي: حديث نمبر: 227)
لہٰذا امام کی ذمہ داری ہے کہ وہ نماز شروع کرنے سے پہلے کوئی بھی مناسب طریقہ اختیار کرکے صفوں کو سیدھا کرانے کا اہتمام کرے، خواہ وہ "قد قامت الصلوٰۃ" کے وقت تک مقتدیوں کی طرف رخ کرکے کھڑا ہو یا کوئی اور طریقہ ہو، نیز یہ عمل اقامت سے پہلے بھی انجام دیا جاسکتا ہے اور اقامت کے بعد تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے بھی انجام دیا جاسکتا ہے، البتہ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اقامت کے بعد تکبیر تحریمہ سے پہلے صفوں کو سیدھا کرنے کا اعلان فرماتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (رقم الحدیث: 719، ط: طوق النجاة)
حدثنا أنس قال أقيمت الصلاة فأقبل علينا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بوجهه فقال أقيموا صفوفكم وتراصوا فإني أراكم من وراء ظهري.
و فيه ایضاً: (رقم الحدیث: 723، ط: طوق النجاۃ)
عن قتادة عن أنس عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: "سووا صفوفكم فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة".
سنن أبى داود: (رقم الحديث: 662، ط: دار الكتاب العربي)
عن أبى القاسم الجدلى قال سمعت النعمان بن بشير يقول أقبل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على الناس بوجهه فقال « أقيموا صفوفكم ». ثلاثا « والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم ». قال فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه.
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 227، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن النعمان بن بشير، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسوي صفوفنا، فخرج يوما فرأى رجلا خارجا صدره عن القوم، فقال: لتسون صفوفكم أو ليخالفن الله بين وجوهكم….حديث النعمان بن بشير حديث حسن صحيح….
وروي عن عمر: أنه كان يوكل رجالا بإقامة الصفوف، ولا يكبر حتى يخبر أن الصفوف قد استوت.
وروي عن علي، وعثمان، أنهما كانا يتعاهدان ذلك، ويقولان: استووا.
وكان علي يقول: تقدم يا فلان، تأخر يا فلان.
إعلاء السنن: (360/4، ط: إدارة القرآن و العلوم الإسلامية)
قوله: " أخبرنا مالك مرتين" إلخ، قلت: دلالتهما على الاعتناء بتسوية الصفوف، وعلى أن لايكبر الإمام حتى يعلم باستوائهما ظاهرة،…السنة للإمام أن يسوي الصفوف ثم يكبر، كذا في المرقاة…وإذا لم تستو عند إقامة المؤذن، فالسنة أن يسوي الصفوف ثم يكبر.
مرقاة المفاتيح: (849/3، ط: دار الفكر)
قال الطيبي: في الحديث بيان أن الإمام يقبل على الناس فيأمرهم بتسوية الناس. اه. يعني إذا رأى خللا في الصف ; وإلا فلا فائدة في الأمر.
فتح الباري لابن حجر: (208/2، ط: دار المعرفة)
قوله وتراصوا بتشديد الصاد المهملة أي تلاصقوا بغير خلل ويحتمل أن يكون تأكيدا لقوله أقيموا والمراد بأقيموا سووا كما وقع في رواية معمر عن حميد عند الإسماعيلي بدل أقيموا واعتدلوا وفيه جواز الكلام بين الإقامة والدخول في الصلاة وقد تقدم في باب مفرد وفيه مراعاة الإمام لرعيته والشفقة عليهم وتحذيرهم من المخالفة.
البحر الرائق: (375/1، ط: دارالكتاب الاسلامي)
وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی