عنوان: دوران سفر اپنے وطن اصلی سے گزر ہو تو کیا حکم ہے؟ (9922-No)

سوال: اگر کوئی بندہ مقام اقامت میں رہائش پذیر ہو مقام اقامت اور مقامِ اصلی کے درمیان مسافتِ سفر 60 کلومیٹر ہے، اب اگر وہ بندہ مقام اقامت سے مقام اصلی کی جانب کسی دوسرے شہر یا گاؤں میں سفر کرتا ہے جوکہ مقام اقامت سے 100 کلومیٹر بنتا ہے اور مقامِ اصلی سے 40 کلومیٹر کی دوری پر بنتا ہے۔
سفر کے دوران وہ بندہ مقام اصلی کی حدود کے قریب قریب سے گزرتے ہوئے 100 کلومیٹر دور شہر جاتا ہے لیکن مقام اصلی کی حدود میں داخل نہیں ہوتا، قریب قریب سے یعنی منسلک گاؤں جو کہ 3 کلومیٹر کی دوری پر ہے وہاں سے گزرتا ہے، اب وہ قصر کرے گا یا پوری نماز پڑھے گا؟

جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص سفر کے دوران اپنے وطن اصلی سے گزرے تو وہ شہر میں داخل ہوتے ہی مقیم ہو جائے گا خواہ وہاں رکنے کا ارادہ ہو یا نہ ہو، اور جس جگہ جا رہا ہے اگر وہ وطن اصلی سے مسافت سفر سے کم پر واقع ہے تو وہاں پہنچنے تک مقیم ہی رہے گا اور اگر اپنے وطن اصلی کے باہر باہر سے گزرے تو وہ شخص مسافر ہی رہے گا اور قصر کرے گا۔
لہذاسوال میں ذکرکردہ صورت میں اگر وطن اصلی کی حدود کے قریب گاؤں اور وطن اصلی میں اتصال نہ ہو، یعنی درمیان میں کوئی خالی کھیت یا راستہ وغیرہ ہو تو مذکورہ شخص مسافر ہوگا اور قصر کرے گا، لیکن اگر قریب کے گاؤں اور وطن اصلی میں اتصال ہو تو مذکورہ شخص اپنے وطن اصلی پہنچتے ہی مقیم ہوجائے گا اور جس جگہ جارہا ہے وہ چونکہ وطن اصلی سے چالیس کلومیٹر کی دوری پر ہے اور مسافت سفر سے کم پر واقع ہے تو وہاں پہنچنے تک مقیم ہی رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (121/2، ط: دار الفکر)
وأشار إلى أنه يشترط مفارقة ما كان من توابع موضع الإقامة كربض المصر وهو ما حول المدينة من بيوت ومساكن فإنه في حكم المصر وكذا القرى المتصلة بالربض في الصحيح، بخلاف البساتين، ولو متصلة بالبناء لأنها ليست من البلدة ولو سكنها أهل البلدة في جميع السنة أو بعضها، ولا يعتبر سكنى الحفظة والأكرة اتفاق إمداد.
وأما الفناء وهو المكان المعد لمصالح البلد كركض الدواب ودفن الموتى وإلقاء التراب، فإن اتصل بالمصر اعتبر مجاوزته وإن انفصل بغلوة أو مزرعة فلا كما يأتي، بخلاف الجمعة فتصح إقامتها في الفناء ولو منفصلا بمزارع لأن الجمعة من مصالح البلد بخلاف السفر كما حققه الشرنبلالي في رسالته وسيأتي في بابها، والقرية المتصلة بالفناء دون الربض لا تعتبر مجاوزتها على الصحيح.

و فیه ایضاً:(124/2، ط: دار الفکر)
(قوله حتى يدخل موضع مقامه) أي الذي فارق بيوته سواء دخله بنية الاجتياز أو دخله لقضاء حاجة لأن مصره متعين للإقامة فلا يحتاج إلى نية جوهرة، ودخل في موضع المقام ما ألحق به كالربض كما أفاده القهستاني (قوله إن سار إلخ) قيد لقوله حتى يدخل إي إنما يدوم على القصر إلى الدخول إن سار ثلاثة أيام.

و فیه ایضاً: (132/2، ط: دار الفکر)
والحاصل: أن إنشاء السفر يبطل وطن الإقامة إذا كان منه أما لو أنشأه من غيره فإن لم يكن فيه مرور على وطن الإقامة أو كان ولكن بعد سير ثلاثة أيام فكذلك، ولو قبله لم يبطل الوطن بل يبطل السفر لأن قيام الوطن مانع من صحته والله أعلم.

الفتاوی الهندية: (139/1، ط: دار الفكر)
وكذا إذا عاد من سفره إلى مصره لم يتم حتى يدخل العمران ولا يصير مسافرا بالنية حتى يخرج ويصير مقيما بمجرد النية، كذا في محيط السرخسي.
ثم المعتبرة المجاوزة من الجانب الذي خرج منه حتى لو جاوز عمران المصر قصر وإن كان بحذائه من جانب آخر أبنية، كذا في التبيين.
وإن كان في الجانب الذي خرج منه محلة منفصلة عن المصر وفي القديم كانت متصلة بالمصر لا يقصر الصلاة حتى يجاوز تلك المحلة، كذا في الخلاصة.

و فيها أيضاً: (142/1، ط: دار الفکر)
وإذا دخل المسافر مصره أتم الصلاة وإن لم ينو الإقامة فيه سواء دخله بنية الاختيار أو دخله لقضاء الحاجة، كذا في الجوهرة النيرة.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1544 Nov 07, 2022
dorane safar agar apne watane asli se guzar ho to kia hokum / hokom hay?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.