سوال:
اگر ایک شخص پانچوں وقت کی نماز میں صرف فرض نماز ادا کرے اور سنتیں نہیں ادا کرے تو کیا ایسا شخص گنہگار ہوگا؟
دراصل مجھے پوری نماز ادا کرنی بہت مشکل لگتی ہے اور اس وجہ سے میں اکثر نماز ہی چھوڑ دیتا ہوں اور اگر میں ارادہ کروں کہ صرف فرض نماز ادا کروں گا تو میں پانچ وقت کی نماز پڑھ لیتا ہوں کیا میں گنہگار ہو رہا ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ سنت موکدہ عمل کے اعتبار سے واجب کی طرح ہے، یعنی بلا عذر سنت مؤکدہ کو چھوڑنے والا اور اس کے ترک کی عادت بنانے والا فاسق اور گنہگار ہے، نبی اکرم ﷺ کی شفاعت سے محروم رہے گا، البتہ اگر کوئی عذر ہو مثلاً: سفر میں ہو یا وقت تنگ ہے اور صرف فرض نماز ادا کی جاسکتی ہو تو اس وقت سنتوں کو چھوڑنے کی گنجائش ہے،لہذا پوچھی گئی صورت میں بلا کسی عذر کے سنت موکدہ چھوڑنے کی وجہ سےگناہگار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (337/6، ط: دار الفکر)
"وفي الزيلعي في بحث حرمة الخيل: القريب من الحرام ما تعلق به محذور دون استحقاق العقوبة بالنار، بل العتاب كترك السنة المؤكدة، فإنه لا يتعلق به عقوبة النار، ولكن يتعلق به الحرمان عن شفاعة النبي المختار – صلى الله عليه وسلم – لحديث «من ترك سنتي لم ينل شفاعتي» فترك السنة المؤكدة قريب من الحرام، وليس بحرام اه.".
رد المحتار: (338/6، ط: دار الفکر)
"وما في الزيلعي موافق لما في التلويح حيث قال: معنى القرب إلى الحرمة أنه يتعلق به محذور دون استحقاق العقوبة بالنار؛ وترك السنة المؤكدة قريب من الحرمة يستحق حرمان الشفاعة اه. ومقتضاه أن ترك السنة المؤكدة مكروه تحريما لجعله قريبا من الحرام، والمراد سنن الهدى كالجماعة والأذان والإقامة فإن تاركها مضلل ملوم كما في التحرير والمراد الترك على وجه الإصرار بلا عذر".
المحيط البرهاني: (الفصل الحادی و العشرون فی التطوع قبل الفرض، 446/1، ط: دار الکتب العلمیة)
"رجل ترك سنن الصلوات الخمس إن لم ير السنن حقاً فقد كفر، وإن رأى السنن حقاً، منهم من قال: لايأثم، والصحيح أنه يأثم. وفي «النوازل»: إذا ترك السنن، إن تركها بعذر فهو معذور، وإن تركها بغير عذر لايكون معذوراً، ويسأله الله تعالى عن تركها".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی