سوال:
ایک شخص کی شادی کو تقریباً 10 سال یا اس سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے شادی کے کچھ دنوں بعد ہی دونوں میاں بیوی کی آپس میں کچھ معاملات پر علحیدہ ہو گئی اب وہ دونوں الگ الگ گھروں میں رہتے ہیں مگر کوئی دعوت یا شادی بیاہ کا موقع ہوتا ہے تو ایک دوسرے سے ملتے بھی ہیں فون اور ویڈیو کال پر باتیں بھی کرتے ہیں مگر 10 سال سے الگ ہی رہتے ہیں ایک گھر میں ایک ساتھ نہیں رہتے اور نہ ہی میاں بیوی والے تعلقات ہیں مطلب ایک دوسرے کی رضامندی سے دونوں الگ الگ رہنے لگے ہیں تو کیا یہ دین و شریعت میں جائز ہے اور اس سے ان کے نکاح پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے اور کیا اس طرح کرنے سے وہ گنہگار ہورہے ہیں؟ نیز شریعت میں اس طرح رہنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ میاں بیوی کا لمبے عرصہ تک ایک دوسرے سے الگ رہنے سے ان کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر شوہر نے بیوی کو طلاق نہیں دی ہے تو ان کا آپس میں نکاح بدستور برقرار ہے، البتہ نکاح کرنے کی وجہ سے میاں بیوی پر ایک دوسرے کے بہت سے حقوق لازم ہوجاتے ہیں، جو اِس طرح الگ رہنے سے ضائع ہوجاتے ہیں اور ان کے ضائع کرنے کا شرعاً گناہ بھی ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں میاں بیوی کو چاہیے کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے، اس پر توبہ و استغفار کرکے ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور اس طرح علیحدہ رہنے سے حتی الوسع گریز کریں، اگر وہ ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کر سکتے اور نباہ بھی ممکن نہ ہو تو شوہر کو چاہیے کہ وہ بلاوجہ عورت کو لٹکا کر نہ رکھے، بلکہ طلاق دے كر اپنےحق زوجیت سے آزاد کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (348/1، ط: دار الفكر)
(وأما حكمه) فوقوع الفرقة بانقضاء العدة في الرجعي وبدونه في البائن كذا في فتح القدير. وزوال حل المناكحة متى تم ثلاثا كذا في محيط السرخسي.
الدر المختار مع رد المحتار: (229/3، ط: دار الفكر)
ومن محاسنه التخلص به من المكاره
(قوله ومن محاسنه التخلص به من المكاره) أي الدينية والدنيوية بحر: أي كأن عجز عن إقامة حقوق الزوجة، أو كان لا يشتهيها.
بدائع الصنائع: (151/3، ط: دارالكتب العلمية)
وأما حكم الخلع … فحكمه أنه يقع الطلاق، ولا يسقط شيء من المهر، وإن كان ببدل.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی