عنوان: طالبات کے لئے ماہواری کی حالت میں امتحانی پرچے میں قرآن کریم کی آیات لکھنے کا حکم(9985-No)

سوال: مفتی صاحب! عرض یہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیمی اداروں میں بکثرت یہ صورت پیش آتی ہے کہ بچیوں ‏کے ماہواری کے دنوں میں امتحان آجاتے ہیں اور امتحانی پرچے میں انہیں بعض اوقات قرآنی آیات لکھنی پڑتی ہیں ‏تو اس صورتحال میں ان کے لئے آیات لکھنے کا کیا حکم ہے؟ اگر وہ آیات نہیں لکھتیں تو بعض اوقات ان کے نمبر ‏کٹنے کا بھی امکان ہوتا ہے، کیونکہ اس موقع پر آیت لکھنا ضروری ہوتا ہے۔ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب: واضح رہے کہ اگر کسی کاغذ یا کپڑے وغیرہ پر پہلے سے کوئی آیت لکھی ہوئی ہو تو حالتِ حیض میں عورت کے لئے اس کی آیت والی جگہ کو ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے اور آیت کو چھوئے بغیر وہ کاغذ کو ہاتھ میں پکڑ سکتی اور اٹھا سکتی ہے، لیکن اگر عورت کو حالت حیض میں خود آیت لکھنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس کے لئے کاغذ وغیرہ کو ہاتھوں میں پکڑتے اور اٹھاتے ہوئے یا ‏آیات کو چھوتے ہوئے آیت تحریر کرنا مکروہِ تحریمی اور ناجائز ہے، البتہ کاغذ پر ہاتھ رکھے اور اسے چھوئے بغیر زمین یا میز جیسی کسی چیز پر ‏رکھ کر صرف قلم کی نوک سے آیات لکھنے کی گنجائش ہے، تاہم مکروہِ تنزیہی ہونے کی بناء پر اس ‏صورت سے بھی بچنا بہتر ہے۔
لہٰذا ماہواری کے دوران امتحانات میں جواب لکھتے وقت طالبات اگر آیت لکھنے کی ضرورت محسوس کریں اور آیات لکھنا ناگزیر ہو تو قلم سے اس کے لکھنے کی گنجائش ہوگی، ‏البتہ لکھی ہوئی آیت اور کاغذ کے اس حصے کو اِس صورت میں بھی چھونا جائز نہیں ہوگا اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ کاغذ کے اوپر ایک اور سادہ کاغذ رکھ کے آیات لکھیں اور جس کاغذ پر آیت لکھیں اس پر ہاتھ نہ رکھیں، بلکہ دوسرے کاغذ پر ہاتھ رکھیں، تاہم بلا ضرورت اس سے بھی اجتناب کرنا بہتر ہے، نیز اگر صرف آیت کا حوالہ دینا کافی ہو تو آیت لکھنے کے بجائے اس آیت کا صرف نمبر اور سورت بتلاکر حوالہ دینے پر اکتفاء کرلینا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية: (146/2، ط: مركز العلماء العالمي ‏للدراسات و تقنية المعلومات)‏
‏(وكره اللمس بالكم، ولا درهما فيه سورة إلا بصرة، أراد درهما عليه آية من ‏القرآن، وإنما قال: سورة، لأن العادة كتابة سورة الإخلاص ونحوها على ‏الدراهم.‏
قوله: إلابصرة ؛ بضم الصاد المهملة، وتشديد الراء المهملة، بالفارسي: همياني ‏وكيسه يعني لو كان درهم كتب فيه قدر من القرآن لا يحل مسه للجنب؛ لأن ‏حكمه حكم المصحف، إلا إذا كان في صرة، فإنه كالغلاف المتجافي.‏

الفتاوى الهندية: (39/1، ط: دار الفکر)‏
ويكره للجنب والحائض أن يكتبا الكتاب الذي في بعض سطوره آية من القرآن ‏وإن كانا لا يقرآن القرآن والجنب لا يكتب القرآن وإن كانت الصحيفة على ‏الأرض ولا يضع يده عليها وإن كان ما دون الآية وقال محمد أحب إلي أن لا ‏يكتب وبه أخذ مشايخ بخارى. هكذا في الذخيرة.‏

الدر المختار مع رد المحتار‎:‎‏ (172/1، ط: دار الفکر)‏
‏ (و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم ‏وجدار‎.‎
‏(قوله: أو التعليم) فرق بعضهم بين الحائض والجنب بأن الحائض مضطرة؛ لأنها ‏لا تقدر على رفع حدثها بخلاف الجنب والمختار لأنه لا فرق.‏

رد المحتار‎:‎‏ (173/1، ط: دار الفکر)‏
قال ح: لكن لا يحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا ‏في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لا يكره مسه ‏كما في حيض القهستاني. وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية ‏من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو ‏أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل.‏

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 865 Nov 28, 2022
talibat / bachio k liye mahwari ki halat me / mein parchay / imtihan / exam mein quran kareem ki ayaat likhnay ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Women's Issues

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.