ماہِ ربیع الثانی اسلامی سال کا چوتھا مہینہ ہے۔
ربیع الثانی کی وجہ تسمیہ:
۱۔’’ربیع ‘‘عربی میں موسمِ بہار کو کہا جاتا ہے، اور ثانی کے معنی ہیں: دوسرا،
تو ربیع الثانی کے معنی ہوئے:دوسرا موسمِ بہار۔
موسمِ بہار دو زمانوں پر مشتمل ہوتا ہے: ایک تو اس کا ابتدائی زمانہ ،جس میں کلیاں اور پُھول کھلتے ہیں، اور دوسرا وہ زمانہ جب پھل پک جاتے ہیں، پہلے زمانے کو ربیع الاوّل یعنی پہلا موسمِ بہار، جبکہ دوسرے زمانے کو ربیع الثانی یعنی دوسرا موسمِ بہار کہا جاتا ہے۔جب ان مہینوں کے یہ نام رکھے جارہے تھے ، تو اس وقت بہار کے یہی موسم تھے، اورپھر بعد میں ان مہینوں کے یہی نام پڑگئے (1)
۲۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ’’ربیع ‘‘یہ ’’ارتباع ‘‘سے نکلا ہے ، جس کے معنی ہیں ’’موسمِ بہار میں قیام کرنا‘‘ چونکہ عرب لوگ ربیع الاوّل اور ربیع الثانی ان دو مہینوں میں سفر کرنے کے بجائے موسمِ بہار گزارنے کی غرض سے گھروں میں قیام پذیر ہوتے تھے ، اس لیے پہلے مہینے کا نام ’’ ربیع الاوّل ‘‘ اور دوسرے مہینے کا نام ’’ربیع الثانی ‘‘ رکھا گیا اور ان دونوں مہینوں کو ’’ربیعین‘‘ (دو ربیع)بھی کہتے ہیں۔(2)
اس مہینے کو’’ربیع الآخر‘‘ بھی کہتے ہیں۔
ربیع الثانی کی فضیلت:
اس مہینہ کی قرآن وسنت سے کوئی خاص متعین فضیلت ثابت نہیں ہے اور نہ ہی شریعت نے اس مہینے کے حوالے سے کوئی خاص حکم دیا ہے۔
ربیع الثانی کی بدعات اور رسومات:
اس مہینہ میں برصغیر میں ایک عمل بہت رواج پاگیا ہے، جسے شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے او ر اسے ’’گیارھویں شریف‘‘ کہتے ہیں ۔
گیارہویں شریف کی حقیقت:
ہمارے معاشرے میں بعض لوگ ہر قمری مہینے کی گیارہویں رات کو شیخ عبد القادر جیلانی کے نام سے کھانا بناتے ہیں ،جو ’’گیارہویں شریف ‘‘کے نام سے مشہور ہے،گویا ہر مہینے کی گیارہ تاریخ کو چھوٹی گیارہویں اور ’’ربیع الثانی‘‘ کی گیارہ تاریخ کو بڑی گیارہویں شریف منائی جاتی ہے، اس حوالےسے چند امور قابلِ توجہ ہیں۔
۱۔گیارہویں کی ابتداء کب ہوئی؟
گیارہویں شریف کی نسبت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کی جاتی ہے اور شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ ۴۷۱ھ میں پیدا ہوئے اورآپ کی وفات561ھ میں ہوئی۔ جس کا مطلب ہے کہ اسلام کی چھ صدیوں میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کےنام ایصال ِثواب کی یہ رسم کہیں نہ تھی ،اور یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین ، تابعینؒ، ائمہ کرام ؒ، اور خودحضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنی ’’گیارہویں‘‘ نہیں دیتے تھے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفا ت کے بعد یہ رسم کب جاری ہوئی ، اس کا ثبوت نہیں ملتا ، دسویں صدی کے مجدد ملاعلی قاریؒ ،گیارہویں صدی کے مجددحضرت امام ربانی مجددالف ثانی ؒ ،حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ ، بارہویں صدی کے مشائخ نقشبندیہ میں سے قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ اورخاتم المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ ، ان اکابر علماءاور بزرگوں میں سے کسی بزرگ نے ’’ گیارہویں شریف‘‘ کی رسم کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔لہذا واضح ہو اکہ تیرہویں صدی کے نصف اول تک اہل السنة والجماعة میں ’’گیارھویں شریف‘‘ کے نام سے کوئی دینی تقریب یا مذہبی رسم موجود نہ تھی۔
(مطالعہٴ بریلویت،ج:۶ ، ص: ۳۱۳ ۔۳۱۵، ط: حافظی بک ڈپو دیوبند)
۲۔صرف شیخ جیلانی کی ہی گیارہویں کیوں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ایک بڑے بزرگ ہیں، جن کی عظمت مسلّم ہے، ان کی شان میں بے ادبی وگستاخی گمراہی کی علامت ہے؛ لیکن اہل السنة والجماعة کا عقیدہ ہے کہ تمام مخلوق میں انبیاء علیہم السلام کا مرتبہ سب سے بڑا ہے ، اور انبیاء میں سب سے افضل آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پھر خلفاءِ راشدین اور ان کے بعد عشرہٴ مبشرہ اور باقی صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا درجہ بدرجہ رتبہ اور مقام ہے۔اولیائے کرام اوربزرگان دین میں سے جن کو صحابی ہونے کا شرف حاصل نہیں ہے ، وہ کسی صحابی سے افضل نہیں ، بلکہ کسی صحابی کے برابر درجہ بھی نہیں رکھتے۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ؟ آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم !جو مٹی جناب رسول اللہ ﷺ کی معیت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں داخل ہوئی ہے ، وہ عمر بن عبدالعزیز ؒ جیسے سو بزرگوں سے بہتر ہے۔(3)
بہ غور سوچئے کہ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسی مقدس ہستیوں کا ’’یومِ وفات‘‘ منانے کی شریعت نے کوئی تاکید نہیں کی تو شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ جیسے ایک ولی کا یومِ وفات منانے کا کیا مطلب؟
ویسے بھی دن منانا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں،کیوں کہ مراتب ودرجات کا لحاظ کرکے سب سے پہلے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ، ہزاروں کی تعداد میں ہیں، اگر یوں دن منانے شروع کیے جائیں تو سال بھر میں کوئی دن خالی نہیں ملے گا۔روزانہ کسی نبی ، رسول، صحابہ، تابعین ، تبع تابعین اور اولیاء و صلحاء میں سے کسی کی وفات کا دن ہوگا، اس طرح تو جینا ہی دشوار ہوجائے گا۔کاروبار زندگی ٹھپ ہوجائے گا، دین آسان ہونے کی بجائے مشکل سے مشکل تر ہو جائے گا۔
شیخ عبد القادر جیلانی کی تاریخ وفات میں اختلاف:
گیارہویں کی رسم کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ گیارہ ربیع الثانی کو شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کی وفات ہوئی ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شیخ عبد القادر رحمہ اللہ کی تاریخ وفات میں بھی اختلاف ہے۔شیخ عبد القادر اربلی نے ’’تفریح الخاطر فی مناقب سید عبد القادر ‘‘ میں مختلف اقوال بیان کیے گئے ہیں:
علماء کا اختلاف ہے کہ آپ نے ربیع الثانی کی کس تاریخ میں وصال فرمایا، رسالہ بہجۃ الاسرار میں ۱۶ ربیع الثانی اور’’کتاب نور احمدی‘‘ ملفوظ سید احمد رفاعی میں بعد جمعۃ المبارک ہفتہ کی رات ’’ دس ربیع الاول اور ’’گیارہ‘‘ ربیع الاول بھی بتایا گیا۔’’تحفہ قادریہ‘‘ میں ہے کہ ربیع الثانی کی ’’ ۱۷‘‘ تاریخ کو وصال فرمایا اور سید نور محمود القادری نے’’ اوراد قادریہ‘‘ میں ربیع الثانی ۱۳ تاریخ ‘‘ کو وصال مبارک لکھا ہے اور ۱۷، ۱۸ اور۱۱تاریخ بھی منقول ہے۔(تفریح الخاطر فی مناقب سید عبد القادر،ص:۱۵۴ ،ط:قادری رضوی کتب خانہ لاہور)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے خلفاء ومریدین ومتبعین نے بھی دن وماہ کی تعیین کے ساتھ برسی اور یومِ وفات منانے کا اہتمام نہیں کیا، اگر کیا ہوتا تو تاریخِ وفات میں اتنا شدید اختلاف نہ ہوتا۔
شیخ عبد القادر جیلانی کا قول:
شریعت سے ہٹ کر اپنی طرف سے کسی بدعت کا اختراع کرنے والے کے بارے میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اپنے آقا کی خوشنودی سے محروم ہے وہ شخص جو اس پر تو عمل نہ کرے جس کااس کو حکم کیا گیا، اور جس کا آقا نے حکم نہیں دیا اس میں مشغول رہے ، یہی اصل محرومی ہے ۔یہی اصل موت ہے اور یہی اصل محرومیت ہے۔(فتاویٰ رحیمیہ، ج:۲، ص:۷۷، ط: دارالاشاعت ، کراچی)
۳۔ گیارہویں کا سرا ہندوانہ رسومات سے ملتا ہے:
مروجہ گیارہویں بدعت ہے ، زمانہ سلف صالحین میں اس کا وجود نہیں تھا،بلکہ مسلمانوں نے یہ رسم اہل ہنود سے لی ہے۔
چنانچہ مشہور مؤرخ علامہ بیرونی لکھتے ہیں:وراث کے اوپر میت کے جن حقوق کو پہلے سال انجام دینا واجب ہے ، وہ سولہ کھانے یا ضیافتیں ہیں ، ان ضیافتوں میں کھانا کھلایا جاتا اور اسی میں کچھ صدقہ بھی دیا جاتا ہے، یہ ضیافتیں موت سے کے گیارہویں اور پندرہویں دن اور اس کے بعد ہر مہینے میں ایک مرتبہ دی جاتی ہیں۔(کتاب الہندللبیرونی،مترجمہ سید اصغرعلی، ص:۵۱۶، ط:الفیصل ناشران ، لاہور)
اسی طرح مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ سابق اننت رام ’ ’تحفة الہند‘‘ میں لکھتے ہیں:
اگر مرنے والا برہمن ہے تو مرنے کے بعد گیارہویں دن، کھتری ہے تو تیرہویں دن ، اگر ویش (بنیہ) ہے تو پندرہویں ، سولہویں دن ، اگر شودر ہے تیسواں یا اکتسویں دن کریا کرم ہوتا ہے ، کریا کرم کے چھ ماہ بعد چھ ماہی ہوتی ہےاور سال بھر بعد برسی کے دن گائے کو بھی کھانا کھلاتے ہیں ۔ مرنے کے چار سال بعد سدھ کی رسم ہوتی ہے ، عام طور ہر اسوج کے مہینے میں جس تاریخ کو کوئی مراہو، اس تاریخ پر مردہ کے لیے ثواب پہنچانالازمی سمجھا جاتا ہے، کھانے کے ثواب کا نام ’’سرادھ‘‘ہے۔ ’’سرادھ‘‘کا کھانا تیار ہو جاتا ہے تو اس پر پنڈت کو بلا کر کچھ’ ’بید ‘‘ پڑھواتے ہیں، ۔۔۔۔اسی طرح اور دن بھی مقرر ہیں ، لیکن جب اپنے معبودوں کی روح کی واسطے کچھ کرتے ہیں تو وہاں ثواب پہنچانے کی نیت تو ہوتی نہیں ، بلکہ ان سے ڈر کر یا کچھ نفع کی امید رکھ کر یا بطورنذر منت کے ان کے بھینٹ دیتے ہیں اور اس مقصد کے لیے بھی دن مقرر ہیں ۔۔۔۔۔ اسی طرح مسلمانوں نے بھی ہندوؤں کی دیکھا دیکھی تیجہ ، ساتواں ، چالیسواں اور برسی کے دن مقرر کر لیے ہیں اور کھانا تیار کرواکر اس پر ختم پڑھوانا شروع کر دیا ، حالانکہ ان رسوم باطلہ کی دین اسلام میں کوئی حیثیت نہیں، ان رسومات کو بدعات اور ہنود کی مشابہت کہا جاتا ہے۔(تحفۃ الہند، ص: ۱۸۴، ط: مکی دار الکتب )
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان سے باہر عراق (جہاں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے) اور مصر وشام ، بلکہ ملیشیا اور انڈونیشیا تک کہیں یہ بات نہیں ملتی کہ کسی مسجد یا مدرسہ یا کسی قبرستان میں کوئی تقریب “گیارہویں شریف” کے نام سے منعقدکی گئی ہو۔ (مطالعہٴ بریلویت،ج:۶ ، ص: ۳۱۳ ، ط: حافظی بک ڈپو دیوبند)
گیارہویں شریف ’ ’اہلِ حدیث علماء کرام ‘‘کی نظر میں:
مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
“ختمِ گیارہویں کا رواج نہ زمانہٴ رسالت میں تھا نہ عہدِ خلافت میں، اس لیے بدعت ہے۔ حدیث شریف میں ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو کام ہم نے نہ بتایا ہو ،نہ کیا ہو․․․․وہ مردود ہے، اس لیے ایسی بدعت کی مجلس میں شریک ہونا یا اس چیزکاکھاناگناہ ہے،خدا کے واسطے دینا منع نہیں ،لیکن گیارہویں کے نام سے کرنا شرک یا کم سے کم بدعت ہے، ایسے افعال سے خود حضرت پیر صاحب نے منع فرمایا ہواہے”۔(فتاویٰ ثنائیہ،ص: ۳۵۸ ، ط: ادراۃ ترجمان السنۃ ، لاہور)
گیا رہویں کی رسم میں پائے جانے والے مفاسد:
گیا رہویں کی رسم میں کئی مفاسد پائے جاتے ہیں ، جن میں سے چند ایک یہ ہیں۔
۱۔اپنی طرف سے وقت مقررکرنا:
شریعت نے ثواب پہنچانے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا ہے، جب اور جس وقت ثواب پہنچایا جائے ، ثواب پہنچ جا تا ہے۔ مگر گیارہویں کی رسم میں گیارہویں کی رات کی کچھ ایسی پابندی کی جاتی ہے کہ کسی اور دن ایصال ِ ثواب کرنے پر راضی نہیں ہوتے،بلکہ گیارہویں منانے والوں کے نزدیک یہ کچھ ایسی ہی عبادت ہے، جو صرف اسی تاریخ کو ادا کی جاسکتی ہے۔ لہذا گیارہویں کے لیے تاریخ کا التزام کرنے اور اس کو ضروری سمجھ لینے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔
۲۔ ایصال ِ ثواب کے لیے کھاناکھلانے ہی کو لازمی سمجھنا:
ایصال ِ ثواب صرف کھاناکھلانے کے ساتھ خاص نہیں ، بلکہ ایصالِ ثواب میں نقد رقم بھی صدقہ کی جاسکتی ہے ، کوئی کپڑا یا غلہ وغیرہ بھی کسی مسکین کو چپکے سے اس طرح صدقہ کیا جاسکتاہے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو۔ لیکن گیارہویں میں ایصالِ ثواب کےلیے کھانا پکانے ہی کو لازمی اور ضروری سمجھاجاتا ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے بغیر ایصالِ ثواب ہی نہیں ہوگا ، اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔
۳۔’’گیارہویں‘‘ نہ دینے سے جان ومال کا نقصان ہوجاتا ہے۔
بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گیارہویں نہ دینے سے جان ومال کا نقصان ہوجاتا ہے یا مال میں بے برکتی ہوجاتی ہے ، اس لیے جس طرح صدقہ و خیرات کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے ، اسی طرح وہ گیارہویں سے پیران پیر شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ کا تقرب حاصل کرناچاہتے ہیں۔
خلاصہ کلام:
پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ یا دوسرے بزرگوں کےلیے ایصال ِ ثواب کرنا سعادت مندی ہے، مگرگیارہویں شریف کے نام سے جو کچھ کیا جاتا ہے ، وہ مذکورہ بالا مفاسد کی بنا ء پر صحیح نہیں ۔
گیارہویں شریف کی نیاز کھانے کا حکم:
اگر کوئی شخص شیخ عبدالقادر جیلانی یا کسی بھی ولی یا عام مسلمان کے ایصال ثواب کے لیے کھانا بناکر تقسیم کرتا ہے، تو یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ مردے کو کسی بھی نیک عمل کا ثواب پہنچایا جاسکتا ہے اور ایسی صورت میں یہ کھانا صرف غریبوں کو کھلانا چاہیے، اور اس کی کوئی خاص صورت قرآن و حدیث میں نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے کوئی خاص وقت مقرر ہے، لیکن اگر نیاز غیر اللہ کے نام پر ہو، تو یہ "ماأہل بہ لغیر اللہ " کے حکم میں داخل ہے، اور موہم شرک ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
"غر یبوں کو کھانا کھلانا،اور قراء تِ قرآن کے ذریعے مردوں کو ثواب پہنچانے کو کسی نے منع نہیں کیا،اس باب میں جو منع ہے تو (وہ)اس طرح مخصوص ہیئت سے ایصال(ثواب کرنے)کو منع کرتے ہیں،جس میں تشبہ بالکفارلازم آجاوے،یا تقییدِمطلق کی آجاوے کہ یہ دونوں (امورتشبہ بالکفار اورمطلق کو مقید کرنا لازم آئے؛ کیوں کہ)تمام امت کے نزدیک (یہ دونوں باتیں) حرام وبدعت ہیں۔
(البراہین القاطعہ:۱۷)
گیارہویں شریف سے متعلق حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی فرماتے ہیں:"گیارہویں کی نیاز سے اگر مقصد ایصال ثواب ہے، تو اس کے لیے گیارہویں تاریخ کی تعیین شرعی نہیں، نیز حضرت غوث الاعظم رحمہ اللہ تعالی کی (کوئی) تخصیص نہیں۔ تمام اولیاء کرام رحمةاللہ تعالی علیہم اور صحابہ عظام رضی اللہ عنہم اس کے مستحق ہیں، سال کے جن دنوں میں میسر ہو اور جو کچھ میسر ہو اور جو کچھ صدقہ کر دیا جائے، اور اس کا ثواب بزرگان دین اور اموات مسلمین کو بخش دیا جائے، فقراء اس کھانے کو کھا سکتے ہیں، امراء اور صاحب نصاب نہیں کھا سکتے، کیوں کہ یہ ایصال ثواب کے لیے بطورصدقہ ہے۔( کفایت المفتی، ج:2، ص: 303،ط: جامعہ فاروقیہ )
مولانااحمد رضا خاں بریلوی صاحب بھی اسی کے قائل ہیں:جو عامی شخص اس تعیینِ عادی کو توقیتِ شرعی جانے اور گمان کرے کہ ان کے علاوہ دنوں میں ایصالِ ثواب ہوگا ہی نہیں،یا جائز نہیں،یا ان ایام میں ثواب دیگر ایام سے زیادہ کامل ووافر ہے،تو بلا شبہ وہ شخص غلط کار اور جاہل ہے اور اس گمان میں خطاکار اور صاحبِ باطل ہے۔(فتاویٰ رضویہ جدید:ج:۹، ص:۵۹۲، ط:رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ گیارہویں شریف کا کھانا ، بلا تعین وقت و ہیئت، محض ایصال ثواب کےلیے کھلایا جائے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر اس کے لیے وقت متعین کیا جائے، تو یہ بدعت اور ناجائز ہے، اس مخصوص ہیئت کے ساتھ گیارہویں شریف کا شریعت مقدسہ میں کوئی ثبوت نہیں اور نہ ہی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے ثابت ہے۔
(6)گیارھویں شریف میں چراغاں کرنا:
"گیارہ ربیع الاول کو چراغاں یا روشنی کرنابالکل ناجائز اور بدعت ہے اور دیوالی کی پوری نقل ہے۔ مساجد میں بھی نمازیوں کی ضرورت سے زیادہ رسماً ورواجاً روشنی کرنا اسراف وحرام ہے۔ اگر متولی مسجد کے مال میں سے ایسا کرے گا تو اس کو اس کا تاوان دینا ہوگا“۔(۷)
(فتاویٰ رحیمیہ ، ج :۲، ص:۷۷، ط: دارالاشاعت ، کراچی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(1) لسان العرب: (98/9، ط: دار صادر)
ومنهم من يسمي الفصل الذي تدرك فيه الثمار وهو الخريف الربيعَ الأَول ويسمي الفصل الذي يتلو الشتاء وتأْتي فبه الكَمْأَة والنَّوْرُ الربيعَ الثاني وكلهم مُجْمِعون على أَنّ الخريف هو الربيع ۔۔۔۔۔ سميا بذلك لأَنهما حُدّا في هذا الزمن فلَزِمَهما في غيره وهما شهرانِ بعد صفَر ولا يقال فيهما إِلا شهرُ ربيع الأَوّل وشهرُ ربيع الآخر۔
(2) تفسیر ابن کثیر: (195/7، ط: مؤسسة قرطبة)
وشهر ربيع الأول سمي بذلك لارتباعهم فيه والارتباع الإقامة في عمارة الربع ويجمع على أربعاء كنصيب وأنصباء وعلى أربعة كرغيف وأرغفة
(3) الفتاوي الحدیثیة لابن حجر الھیتمي: (ص: 218، ط: دار الفکر)
سئل أيما فضل معاوية أو عمر بن عبد العزيز فقال والله للغبار الذي دخل أنف فرس معاوية مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خير من مائة واحد مثل ابن عبد العزيز يريد بذلك أن شرف الصحبة والرؤية لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - وحلول نظره الكريم لا يعادله عمل ولا يوازيه شرف۔
(4) الاعتصام للشاطبي: (53/1، ط: دار ابن عفان)
ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.
رد المحتار: (560/1، ط: دار الفکر)
(قوله أي صاحب بدعة)۔۔۔۔۔۔ وحينئذ فيساوي تعريف الشمني لها بأنها ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة واستحسان، وجعل دينا قويما وصراطا مستقيما اه فافهم
(5) رد المحتار: (239/2، ط: دار الفکر، بیروت)
مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (قوله تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك.ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر، اللهم إلا إن قال يا الله إني نذرت لك إن شفيت مريضي أو رددت غائبي أو قضيت حاجتي أن أطعم الفقراء الذين بباب السيدة نفيسة أو الإمام الشافعي أو الإمام الليث أو اشترى حصرا لمساجدهم أو زيتا لوقودها أو دراهم لمن يقوم بشعائرها إلى غير ذلك مما يكون فيه نفع للفقراء والنذر لله عز وجل وذكر الشيخ إنما هو محل لصرف النذر لمستحقيه القاطنين برباطه أو مسجده فيجوز بهذا الاعتبار۔
(6) رد المحتار: (243/2، ط: دار الفکر، بیروت)
الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اه هو مذهب أهل السنة والجماعة
(7) تنقیح الفتاوي الحامدیة: (326/2، ط: دار المعرفة)
من البدع المنكرة ما يفعل في كثير من البلدان من إيقاد القناديل الكثيرة العظيمة السرف في ليال معروفة من السنة كليلة النصف من شعبان فيحصل بذلك مفاسد كثيرة منها مضاهاة المجوس في الاعتناء بالنار في الإكثار منها ومنها إضاعة المال في غير وجهه ومنها ما يترتب على ذلك من المفاسد من اجتماع الصبيان وأهل البطالة ولعبهم ورفع أصواتهم وامتهانهم المساجد وانتهاك حرمتها وحصول أوساخ فيها وغير ذلك من المفاسد التي يجب صيانة المسجد عنها شرح المهذب للإمام النووي - رحمه الله تعالى - وصرح أئمتنا الأعلام - رضي الله تعالى عنهم - بأنه لا يجوز أن يزاد على سراج المسجد سواء كان في شهر رمضان أو غيره لأن فيه إسرافا كما في الذخيرة وغيرها