ماہ جمادی الاولی کے فضائل، مسائل اور رسومات و منکرات
(دارالافتاء الاخلاص)

’’جمادی الاولی ‘‘اسلامی سال کا پانچواں قمری مہینہ ہے۔

ماہ ِ’’جمادی الاولی‘‘ کی وجہ تسمیہ:
یہ مہینہ عربی زبان کے دولفظوں ’’جمادی‘‘اور’’الاولیٰ‘‘ کامجموعہ ہے۔جمادی ’’جمد‘‘ سے نکلا ہے ، جس کے معنی ’’منجمد ہوجانے، جم جانے ‘‘ کے ہیں اور ’’الاولی ‘‘ کے معنی ہیں: پہلی ، تو جمادی الاولی کے معنی ہوئے ’’پہلی جم جانے والی چیز‘‘

جس زمانے میں اس مہینے کا نام رکھا گیا تھا، عرب میں اُس وقت سردی کا موسم تھا ، جس کی وجہ سے پانی جم جاتا تھا، اس وجہ سے اس مہینے کا نام ’’ جمادی الاولی‘‘( سردی کا پہلا مہینہ) رکھا گیا ۔(۱)

فائدہ:
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں " جمادى" کا لفظ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، چنانچہ " جمادى الأول" اور " جمادى الأولى" اسی طرح " جمادى الآخر" اور " جمادى الآخرة " دونوں طرح کہنا درست ہے۔(۲)

ماہ ِ’’جمادی الاولی‘‘ کی فضیلت:
اس مہینے کی فضیلت قرآن و سنت سے کہیں ثابت نہیں ہے۔

ماہ ِ’’جمادی الاولی‘‘ کے اَعمال:
قرآن وسنت کی روشنی میں اس مہینے سے متعلق مخصوص اَعمال کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس لیے اس ماہ سے متعلق اپنی جانب سے اعمال وعبادات بیان کرنا شریعت میں زیادتی ہے جو کہ ناجائز ہے، لہذ اجو مسنون اعمال دیگر ایام میں کیے جاتے ہیں ، وہ اس مہینے میں بھی کیے جائیں ،جیسے ایام بیض (قمری مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ) مستحب ہیں، ان کا رکھنا فضیلت کا باعث ہے۔

حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا یہ تمام عمر کے روزوں کے مترادف ہے۔ (صحیح مسلم،حدیث نمبر:1162)(۳)

ماہ ِ’’جمادی الاولی‘‘ رسوم و بدعات:
اس مہینے میں ہمارے علاقوں میں کوئی خاص رسم اور بدعت رائج نہیں ہے۔

ماہ ِ’’جمادی الاولی‘‘ کے مخصوص نوافل کا حکم:
بعض لوگ ماہ ِ’’جمادی الاولی‘‘ میں مخصوص نوافل کا اہتمام کرتے ہیں ۔(۴)
واضح رہے کہ اس قسم کی مخصوص نمازوں کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے ان نمازوں کا اس طرح سے التزام نہ کیا جائے، جس کو شریعت نے منع کیا ہو، کیونکہ ہر مباح کام کو اپنے اوپر لازم کرلینے سے شرعاً وہ مکروہ ہو جاتا ہے، اور ان نمازوں کے پڑھنے پر مخصوص ثواب کا اعتقاد بھی نہ رکھے۔(۵)

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اوقات کی قدر کرنے اور اس میں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہم سب کو ہر طرح کی بدعات سے محفوظ رکھے اور سچا مومن بنائے۔
آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) تفسیر ابن کثیر: (195/7، ط: مؤسسة قرطبة)
جمادى: سمي بذلك لجمود الماء فيه. قال: وكانت الشهور في حسابهم لا تدور. وفي هذانظر؛ إذ كانت شهورهم منوطة بالأهلة، ولا بد من دورانها، فلعلهم سموه بذلك، أول ما سمي عند جمود الماء في البرد

لسان العرب: (129/3، ط: دار صادر)
وجمادى من أسماء الشهور معرفة سميت بذلك لجمود الماء فيها عند تسمية الشهور

المصباح المنير في غريب الشرح الكبير للرافعي: (148/1، ط: المكتبة الامیریة، بيروت)
ويحكى أن العرب حين وضعت الشهور وافق الوضع الأزمنة فاشتق للشهور معان من تلك الأزمنة ثم كثر حتى استعملوها في الأهلة وإن لم توافق ذلك الزمان فقالوا ( رَمَضَانُ ) لما أرمضت الأرض من شدة الحرّ و ( شَوَّالُ ) لما شالت الإبل بأذنابها للطروق و ( ذُو القِعْدَةِ ) لما ذللوا القعدان للركوب و ( ذُو الحِجَّةِ ) لمَّا حجوا و ( المُحَرَّمُ ) لما حرموا القتال أو التجارة و ( الصَّفَرُ ) لما غزوا فتركوا ديار القوم صفرا و ( شَهْرُ رَبِيعٍ ) لما أربعت الأرض وأمرعت و ( جُمَادَى ) لما جمد الماء و ( رَجَبُ ) لما رجّبوا الشجر و ( شَعْبَانُ ) لما أشعبوا العود

(2) تفسیر ابن کثیر: (196/7، ط: مؤسسة قرطبة)
وَقَدْ يُذَكَّر وَيُؤَنَّث فَيُقَال جُمَادَى الْأُولَى وَالْأَوَّل وَجُمَادَى الْآخِر وَالْآخِرَة

(3) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 1178، 58/2، ط: دار طوق النجاة) کذا فی صحیح مسلم: (کتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من کل شهر، حدیث نمبر:1162، ص:451، ط: بیت الافکار الدولیہ)
عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: أوصانی خلیلی صلی اللہ علیہ وسلم بثلاث: صیام ثلٰثۃ أیام من کل شہر، ورکعتی الضحیٰ، وأن أوتر قبل أن أنام۔

(4) بارہ مہینوں کے فضائل و مسائل لمفتي محمد فیض احمد اویسي: (ص: 65، ط: عطاری ببلشرز، کراتشي)
جواہر خمسہ(مؤلف:حضرت شاہ محمد غوث گوالیاري: (ص: 75، ط: دارالاشاعت)

(5) الآثار المرفوعة فى الأخبار الموضوعة لعبد الحي الكنوي: (ص:122، ط: دار الکتب العلمیة)
والحكم في هذين القسمين أن نفس أداء تلك الصلوات المخصوصة بتراكيب مختصة لا يضر ولا يمنع عنه ما لم تشتمل تلك الكيفية على أمر يمنع عنه الشرع ويزجر عنه، فإن وجدت كيفية تخالف الشريعة فلا رخصة في أدائها لأحد من أرباب المشيخة زعما منهم أن هذا ثابت في الطريقة وإن خالف الشريعة لما ذكرنا سابقا أن الطريقة ليست مباينة للشريعة ومن توهم ذلك فهو إما جاهل أو مجنون وإما غافل وإما مفتون لكن يشترط في الأخذ بها لا أن لا يهتم بها أزيد من اهتمام العبادات المروية لا سيما الواجبات والفرائض الشرعية وأن لا يظنها منسوبة إلى صاحب الشريعة ولا يتوهم ثبوت تلك الأحاديث المروية ولا يعتقد نسبتها واستحبابها كاستحباب العبادات الشرعية ولا يلتزمها التزاما زجر عنه الشرع فإن كل مباح أدى إلى التزام ما لم يلزم يكون مكرها في الشرع ولا يعتقد ترتب الثواب المخصوص عليه كترتب الثواب المخصوص على ما نص عليه الرسول ويشترط مع ذلك في كليهما ألا يجر التزامها وأدائها إلى إفساد عقائد الجهلة ولا يقضى إلى المفسدة بأن يظن ما ليس نسبه سنة وما هو سنة بدعة۔۔۔۔۔۔ ولعمري وجود من يشتغل بها مع الشروط التي ذكرناها في زماننا هذا نادر وحكم أدائها بدون هذه الشرائط مما أسلفنا ذكره ظاهر وكعلم من التزم بأنواع العبادات الثابتة بتركها الواردة كفى ذلك له في الدنيا والآخرة من غير حاجة إلى التزام هذه الصلوات المخترعة والعمل بالأحاديث المختلفة فافهم واستقم.

Print Views: 6661

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.