بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ڈاکٹر کے ذاتی اخلاق کیسے ہونے چاہئیے؟
اس مضمون میں جو اخلاقیات ذکر کیے جا رہے ہیں، وہ صرف ڈاکٹر حضرات کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ ہر مسلمان کیلئے عام ہیں، لیکن ایک مسلمان ڈاکٹرو معالج کو بطورِ خاص ان کا خیال اس لیے رکھنا چاہیئے، کیونکہ اس پر لوگوں کی صحت کی حفاظت کی ذمہ داری ہے، جوکہ ایک عام شخص کی ذمہ داری اور مرتبہ سے بڑھ کر ہے، لہٰذا ایک ڈاکٹر کےلیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو اور اخلاقِ نبوی ﷺ سے مزین ہو اور اس کے مرتبہ کے لحاظ سے اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے اندر آخرت کی فکرہو، اور وہ رحمت کے جذبہ سے سرشار ہو، اور ساتھ ساتھ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں ظاہری اور روحانی طور پر اپنے اخلاق، شخصیت اور گفتار کے اعتبار سے بھی عام لوگوں سے ممتاز ہو، ا ور اپنے شعبہ سے متعلق جو حقوق اور ذمہ داریاں اس پر لاگو ہوتی ہیں، ان کو بھی پورا کرنے والا ہو۔
ذیل میں معالج کے کچھ اہم ذاتی اخلاق ذکر کیے جاتے ہیں:
نیت کی درستگی
مومن کی نیت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس کے ہر عمل کو عبادت بناسکتی ہے،
چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ :
نية المؤمن خير من عمله. (طبرانی )()
ترجمہ: مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے
چنانچہ میڈیکل کے طالب علم(Student) اور ڈاکٹر کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ہر عمل میں اللہ تعالىٰ کی رضا اور خلقِ خدا کی خدمت کی نیت رکھے، اس سے کئی فوائد ہوں گے:
(1)... ایک فائدہ تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سیدھے اور سچے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں گے۔
(2)...دوسرا فائدہ یہ کہ زندگی میں سکون و آسودگی ہوگی، کیونکہ مقصد دنیاوی شہرت یا دوسرے ڈاکٹر حضرات سے مقابلہ نہیں ہوگا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حاصل کرنا ہوگا۔
(3)... تیسرا فائدہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اس پورے عمل کو آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنادیں گے، جیساکہ حدیث میں ارشاد فرمایا کہ:
إنما الاعمال بالنيات، وانما لكل امرئ ما نوى.(بخاری)(2)
ترجمہ:"اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کیلئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہو"
لہذا ڈاکٹر کو چاہیئے کہ اپنی میڈیکل پریکٹس کے لیے نکلتے وقت درجِ ذیل امور کی نیت کرلے:
(۱) اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت کرے۔
(۲) علاج ومعالجہ،سرکارِ دو عالم ﷺ کی سنت ہے،لہٰذا اس سنت کی ادائیگی کی نیت کرے۔
(۳) مسلمانوں اور انسانیت کی خدمت اور غم گساری کی نیت کرے۔
(۴) معاشرے کو تکلیف اور بیماریوں سے بچانے کی نیت کرے۔
(المدخل لابن الحاج 133/4)(3)
خلوص اور بندگی
نیت درست ہونے کے بعد سب سے اہم چیز دل کا خلوص اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا احساس ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ( سورة الذّٰریات : ۵۶)
یعنی انسان و جنات کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو بندگی کے سانچےمیں ڈھال کر گزاریں اور جب کسی انسان کی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حکم کی پابندی ہو، تو پھراس کی نظر میں دنیا کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ،اس کے بعدوہ اپنے ہر کام میں اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدِّ نظر رکھتا ہے، اور جب ایک ڈاکٹرکے اندر یہ صفت پیدا ہوجاتی ہے، تو پھر یہ علاج ومعالجہ اس کیلئے محض ایک ذریعۂ معاش نہیں، بلکہ عبادت بن جاتا ہے، جس سےاس کا مقصد محض دنیا کمانا نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہوتاہے ۔(4)
دل کی پاکیزگی اور اصلاح ِنفس
دل کی پاکیز گی بہت اہم ہے، حدیث میں آتا ہے:
ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله ، وإذا فسدت فسد الجسد كله ، ألا وهي القلب ( بخاري )()
ترجمہ: آگاہ رہو! بیشک جسم میں ایک خون کا لوتھڑا ہے،اگر وہ ٹھیک ہو تو تمام بدن ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو تمام بدن خراب ہوجاتا ہے، آگاہ رہو ! وہ (لوتھڑا) دل ہے ۔
لہذا ایک ڈاکٹرکیلئے لازم ہے کہ وہ اپنے دل کو تکبر و غرور، حسد و کینہ اور دیگر قلبی گناہوں سے پاک رکھے،اور یہ سمجھے کہ یہ جو کچھ بھی علم و مہارت (Skills)ہیں ، یہ محض اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے عطا کردہ ہیں، اس میں میرا کوئی کمال نہیں،اگر اللہ تعالیٰ کی رضا نہ ہوتی، تو میں یہ مقام کبھی حاصل نہیں کر سکتا تھا۔
حدودُ اللہ کی حفاظت
مسلمان ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹرکے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کی پاسداری کرےاور ہر طرح کے منکرات سے پرہیز کرے ۔
تقویٰ کا حصول اور نیک لوگوں سے تعلق
تقویٰ کا معنیٰ ہے "اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہر قسم کی چھوٹی بڑی نافرمانی سے بچانا"، جس کا نتیجہ مکمل اطاعت ہے، یعنی دین کے ہر حکم کے آگے سرِ خم تسلیم کردینا، قرآن کریم میں نہ صرف تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، بلکہ اس کے حاصل کرنے کا طریقہ بھی ارشاد فرمایا ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ( سورة التوبة: 119)
ترجمۃ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو،اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو
اس آیت میں تقویٰ کے حصول کا ایک ذریعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان نیک لوگوں کے ساتھ اپنا تعلق رکھے، ایسے لوگ جوکہ زبان کے بھی سچے ہوں اور عمل کے بھی سچے ہوں، () تاکہ ان کی نیکی اور تقویٰ کے اثرات انسان کے دل میں آجائیں۔
اسی طرح سورۃ الطلاق میں ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
ترجمہ:اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اُس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا،اور اُسے ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اُسے گمان بھی نہیں ہوگا۔(سورہ الطلاق ،آیت :1و2)
اس آیت مبارکہ میں "تقویٰ" کی دو برکتیں بیان فرمائی ہیں:
(1)... اول یہ کہ تقویٰ اختیار کرنے والے کے لئے اللہ تعالیٰ بچنے کا راستہ نکال دیتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ گناہوں سے بچنے والے آدمی کے لئے دنیا و آخرت کی ہر مشکل و مصیبت سے نجات کا راستہ عنایت فرمادیتے ہیں ۔
(2)...دوسری برکت یہ ہے کہ اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتے ہیں، جہاں کا اس کو خیال و گمان بھی نہیں ہوتا،اورایسے راستوں سے اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات مہیا کردیتا ہے، جس کا اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔()
خود احتسابی (Self assessment )
ایک ڈاکٹر کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ وقتًا فوقتًا اپنے کام کا، مریضوں کے ساتھ اپنے رویہ کا اور اپنے رفقاء کے ساتھ کے معاملات کا جائزہ لیتا رہے اور اپنا احتساب کرے کہ میری طرف سے اس میں کوئی کمی کوتاہی تو نہیں ہورہی یہ اس کے لیے کامیابی کی کنجی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ٰ ہے:
(قَدْ اَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا)
ترجمہ : فلاح اُسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے ۔(سورۃ الشمس،آیت:9)
خود احتسابی کے بعد اپنے اندر جو اخلاقی کمی محسوس کرے، اس کو دور کرنے کی کوشش کرے، جس کیلئے سب سے آسان طریقہ باعمل علما اور نیک لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور وقت گزارنا ہے۔
اللہ پر اعتماد
ڈاکٹرکو ہمیشہ یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اصل شفا دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے، اپنی مہارت،Skillsاور علاج پر اعتماد ضرور ہو، لیکن اصل بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ پاک ہر کام کے لیے راستے آسان فرمادیتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے، تو اللہ اُس (کاکام بنانے )کے لیے کافی ہے۔(سورۃ الطلاق،آیت:3)
عاجزی اور انکساری
یہ صفت ڈاکٹر حضرات کے لیےبہت قیمتی اور اہم ہے، جس کے اندر بھی یہ صفت پائی جائے، اسے اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ تک پہنچادیتی ہے، لہٰذا ایک ڈاکٹرکا دل تکبر سے پاک ہونا چاہیئے اور ظاہری انداز بھی غرور سے خالی اور انکساری والا ہونا چاہیئے، تکبُّر کا انداز نہیں ہونا چاہیئے، بالخصوص جب اللہ تعالیٰ نے اس ڈاکٹرکے ہاتھ میں شفاءرکھی ہو او ردنیاوی اعتبار سے کامیابی اور شہرت عطا فرمائی ہو، تو اس صورت میں تکبر و غرور سے اپنے آپ کو خصوصی طور پر محفوظ رکھنا چاہیے۔
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ:
مَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ»()
ترجمہ : ’’جو کوئی بھی اللہ کیلئے عاجزی و انکساری اختیار کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کو بلندی عطا فرماتے ہیں ‘‘۔
صدق
’’صدق ‘‘سچائی کو کہتے ہیں، لیکن یہاں مراد صرف سچ بولنا نہیں ہے، بلکہ کردار اور گفتار دونوں کی سچائی مراد ہے۔ جہاں ایک ڈاکٹر کیلیے زبان کا سچا ہونا ضروری ہے، وہاں اس کیلیے کردار کا سچا ہونا بھی ضروری ہے، کیونکہ ڈاکٹر ایسے طبقہ سے تعلق رکھتا ہے، جو معاشرہ میں رہنمائی کا کردار ادا کرتا ہے، اس کی باتوں اور کردار کو معاشرہ کیلئے عمومًا اور مریضوں کیلئے خصوصاً مستند سمجھا جاتا ہے، لہذاڈاکٹرکو خود ایسا کام نہیں کرنا چاہیے ، جس کے کرنے کو ڈاکٹر حضرات دوسروں کو منع کرتے ہیں۔
عدل واحسان
کسی بھی دینی عمل یا فریضہ کو سر انجام دینے کیلیے تین درجات ہیں:
1۔احسان2۔ عدل 3۔ظلم
احسان :کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کام کو سرانجام دینے کا حق ہے، اسے اس سے بہتر طریقہ سے انجام دینا۔
عدل: کا مطلب یہ ہے کہ جو اس کام کا حق ہے، اس کو اس کے مطابق سرانجام دینا۔
ظلم: کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کی ادائیگی میں کمی کوتاہی کرنا اور جس طرح اس کے کرنے کا حق ہے، اس طرح سے ادا نہ کرنا۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ اللهَ كَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَیْ ءٍ()
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کو مقرر فرمایا ہے(مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ احسان صرف عبادات کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ ہر جائز کام میں احسان اور عُمدگی مطلوب ہے، لہذا ایک معالج کو چاہیئے کہ وہ اپنے ہر کام کو احسان کے درجہ پر لانے کی کوشش کرے،اور اُسے نہایت عُمدگی سے انجام دے اور اپنے اس فریضہ کو اس کے حق کے مطابق ، بلکہ اس سے بڑھ کر ادا کرے اور عدل کا دامن تو کبھی ہاتھ سے جانے نہ دے۔
اس ضمن میں علاج معالجہ سے متعلق معیارات، جیسے: ہیلتھ کمیشن (health commission) اور JCIA کے اصولوں کی پیروی اور پابندی بھی اسی ضمن میں آجاتی ہے۔
صبر اور برداشت
اللہ جل شانہ نے اپنے کلام میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ.
ترجمہ:اورجو غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کرنے کے عادی ہیں ۔
(سورہ آلعمران،آیت:134)
اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیکل ایسا شعبہ ہے کہ جس میں ایک ڈاکٹرکو مختلف قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، اس کے پاس مختلف طبقات و اقوام اور معاشرہ سے تعلق رکھنے والے ہر طرح کے مزاج و عادات والے لوگ آتے ہیں، بعض مرتبہ مریض اپنی تکلیف اور مرض کی شدت سے ایسی بات کردیتے ہیں، جو کہ ڈاکٹرکو ناگوار گزرسکتی ہے،اور انسان کو اگر سامنے والے کی بات ناگوار گزرتی ہے یا بُری لگتی ہے، تو اس پر غصہ آنا ایک فطری بات ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس بات کی وجہ سے معالج کے دل میں کسی نہ کسی درجہ میں اس مریض کی بُرائی آجائے، لہٰذا ایک ڈاکٹر کیلئے بہت ضروری ہے کہ اس کے اندر صبر، بُرد باری اور برداشت کا مادّہ موجود ہو، کیونکہ اگر ڈاکٹر کے اندر یہ مادہ نہیں ہو، تو اس صورت میں اندیشہ ہے کہ اسے مریض کی بات سے اس حد تک ناگواری ہونے لگے، جس کی وجہ سے اس کے علاج میں کمی کوتاہی رہ جائے، اس صورت میں یہ خیانت کے زمرہ میں آجائے گا۔
مہربانی اور نرم مزاجی
ڈاکٹرزکے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ ان کا اکثر وقت لوگوں کے درمیان گزرتا ہے، کبھی مریضوں کے ساتھ اور کبھی اپنے رفقاء کے ساتھ، لہذا ان کے انداز، مزاج اور گفتگو میں نرمی کی صفت کا ہونا ضروری ہے، یہ اتنی عظیم صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی ﷺ کی اس نرمی کی صفت کا نہ صرف قرآن کریم میں تذکرہ فرمایا ہے، بلکہ اسے اپنی رحمت قرار دیا۔
فرمانِ الہی ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ (سورہ ِٔ آل ِعمران:159 )
ترجمہ:"ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر (اے پیغمبر) تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاو کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔"
اسی طرح ڈاکٹرکو مریضوں کے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آ نا چاہیے ، حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالی مہربان ہیں اور مہربانی کو پسند کرتےہیں اورمہربانی پر وہ عطا فرماتے ہیں جو کہ سختی برتنے پر عطا نہیں فرماتے "(مسلم )()
ایک اور روایت میں ہے :
"جسے شفقت سے محروم کردیا گیا ، وہ گویا خیر سے محروم کردیا گیا ۔"(مسلم )()
دوسروں کا احترام
دورانِ علاج ڈاکٹرکو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے، کہ اپنے مریضوں اور ان کے ساتھ آنے والے تیمار داروں (Attendants) کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آئے۔
جذبۂ رحمت
ایک ڈاکٹر کے اندر رحم کا جذبہ ہونا بہت ضروری ہے، اور یہ رحمت کا جذبہ نہ صرف اپنے مسلمان بھائیوں کیلیے ہو، بلکہ ہر انسان حتیٰ کہ ہر جاندار کیلیے ہو، جیساکہ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے ایک کتے کو ہانپتے ہوئے دیکھا، جو پیاس کی وجہ سے کیچڑ کھارہا تھا، چنانچہ وہ شخص پانی بھرنے کے لیے کنوئیں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا اور موزہ منہ میں پکڑ کر باہر نکل آیا اور اس کتے کو وہ پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ نیکی قبول کی اور اسے معاف فرمادیا، صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ان جانوروں میں بھی ہمارے لیے اجر و ثواب ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (تمہارے لیے) ہر ذی روح میں ثواب رکھا گیا ہے۔()
لہذا جب کوئی ڈاکٹر جذبۂ رحمت سے سرشار ہوگا اور اس جذبے کو انسانی خدمت کیلیے استعمال کرے گا، تو اسے دنیا میں تو صلہ ملے گا ہی، بلکہ آخرت میں بھی یہ عمل اس کے نامۂ اعمال میں اجروثواب میں اضافہ کا باعث بنے گا۔
سادگی اور میانہ روی
ایک ڈاکٹر کی کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ وہ اپنی زندگی میں سادگی اور میانہ روی کو برقرار رکھے ، کیونکہ جب اس کے دل میں دنیاوی خواہشات کم سے کم ہوں گی ، تووہ پوری توجہ اور خلوص کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرے گا ۔
صحت کا خیال رکھنا
ایک ڈاکٹر کے لیے اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، کیونکہ یہ اس کی جان کا حق ہے،جیساکہ حدیث میں آتا ہے آپ ﷺ نے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
ان لنفسسك علیك حقا()
بے شک تمہارے نفس(جان) کا تم پر حق ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر حضرات اپنی ذمہ داریوں میں مصروف ہوکر اپنی ذاتی زندگی سے غافل ہوجاتے ہیں،اپنی جسمانی و روحانی اور معاشرتی ضروریات پر اتنی توجہ نہیں دے پاتے، جتنی ان کو ضرورت ہے، اس حدیث میں ان حضرات کیلئے سبق ہے کہ اپنے ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کے حقوق بھی ادا کریں، اور اس کیلیے جو مختلف کورسز اور پروگرام ترتیب دیئے گئے ہیں، ان میں شرکت بھی کریں اور اپنے اوپر اتنے کام کی ہی ذمہ داری لیں، جس سے بآسانی عہدہ برآں ہوسکیں ،چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ:
"خَيْرُ الْأُمُورِ أَوْسَاطُهَا"()
ترجمہ: " بہتر کام وہ ہیں ، جومیانہ روی کے ساتھ ہوں، "
لہذا ایک ڈاکٹر کو اپنی زندگی کے ہر حصہ کو اس کی ضرورت کے مطابق وقت اور توجہ دینی چاہیئے۔
حفظانِ صحت کے اصولوں کی پاسداری
ڈاکٹر کےلیے اپنی صحت کا خیال رکھنا اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ ایک ڈاکٹر کی اپنی صحت کے اثرات اس کی ذات کی حد تک محدود نہیں رہتے، بلکہ اس کے اثرات اس کے مریضوں، اس کے شعبہ اور معاشرہ تک اثرانداز ہوتے ہیں، چنانچہ ڈاکٹرایسے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے کہ جن کی بیماری پھیل سکتی ہے، وہ تمام احتیاطی تقاضے پورے کرے، جن کی اسے ہدایت کی گئی ہے، تاکہ کوئی متعدی مرض خود ڈاکٹر کی ذات پر بھی اثر انداز نہ ہو، اور ڈاکٹرکے ذریعہ وہ اثرات دوسرے مریضوں تک بھی نہ پہنچیں۔
علم کی جستجو
میڈیکل کا علم ایسا علم ہے، جس میں روز بروز نئی تحقیقات سامنے آتی ہیں، چنانچہ ایکڈاکٹرکیلئے جبکہ وہ عملی میدان میں قدم رکھ چکا ہو،اورخصوصاًجب اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں سے لوگوں کو شفاء بھی عطا فرمارہا ہو، تب بھی اسے حصولِ علم سے اپنے آپ کو بے نیاز نہیں سمجھنا چاہیئے، بلکہ ہمیشہ علم کی جستجو میں رہنا چاہیئے۔
یہی ایک مسلمان کی شان ہے، چنانچہ قرآن پاک میں جناب نبی کریم ﷺ کو یہ دعا سکھلائی گئی:
{ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا }
ترجمہ:" اور یہ دعا کرتے رہا کرو : میرے پروردگار!مجھے علم میں اور ترقی عطا فرما"(سورہ طہٰ،آیت:114)
پیشہ ورانہ پختگی اور مہارت (professional excellence)
ایک ڈاکٹرکو اپنے علم اور فن میں پختہ ہونا چاہیئے، چنانچہ طبرانی کی روایت ہے :
إن الله عز وجل يحب إذا عمل أحدكم عملا أن يتقنه(طبرانی)()
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند فرماتے ہیں کہ جب تم میں سے کوئی عمل کرے تو پختگی کے ساتھ کرے۔
لہٰذا اسے ہمیشہ علم کی جستجو میں رہنا چاہیے،اورکبھی یہ نہیں سمجھنا چاہیےکہ میں اب اپنے فن کا ماہر ہوچکا ہوں ،کیونکہ علم کی کوئی حد نہیں ہے ۔
متعلقہ شرعی احکام کا علم
ایک مسلمان ڈاکٹر پر جہاں دیگر اخلاقی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، وہاں ایک اہم ذمہ داری متعلقہ شرعی احکام سے آگہی بھی ہے، بالخصوص وہ شرعی مسائل جن سے علاج ومعالجہ کے دوران واسطہ پڑتا ہے، جیسے: طہارت، وضو، نماز، روزہ، حج،حمل (Pregnancy)، ولادت (Delivery)، ماہواری(Menses) وغیرہ کے مسائل سے آگاہ رہے،اوراپنےعملے کو بھی آگہی فراہم کرے، تاکہ وہ مریضوں کیلیے ان کے فرائض کی ادائیگی میں معاون ثابت ہوں۔()