سوال:
اگر کوئی جگہ مسجد کے لئے وقف کی گئی ہو اور مسجد اس پورے احاطے پر نہ بنائی گئی ہو تو کیا باقی خالی حصے پر مفاد عامہ کے لئے حجرہ (مہمان خانہ) بنانا جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز نہیں ہے تو اس صورت میں اس تعمیر (مہمان خانہ) کا کیا حکم ہوگا؟
نوٹ: تعمیر پر رقم گورنمنٹ کی خرچ ہوئی ہے اور واقف کا انتقال ہوگیا ہے۔
تنقیح:
محترم! اس سوال کے جواب کے لیے یہ وضاحت درکار ہے کہ مسجد کی وقف زمین میں جو مہمان خانہ تعمیر کیا گیا ہے وہ مسجد کی ضرویات کے لیے ہے یا اہلِ محلہ نے اپنے ذاتی مہمانوں کے لیے تعمیر کرایا ہے؟ اور کیا اس کی حیثیت ذاتی املاک کی سی ہے یا وقف کی طرح ہے؟
جواب تنقیح:
اہل محلہ کی ضروریات کے لیے وقف کیا گیا ہے۔
جواب: واضح رہے کہ مسجد كے ليے وقف زمین میں اگر انتظامیہ کچھ حصہ پر مسجد تعمیر کرائے، جبکہ دوسرے وقف حصہ پر متعلقاتِ مسجد یا رفاہِ عامہ سے متعلق چیزیں بنوائے تو اس کی گنجائش ہے، تاہم جس حصہ پر ایک مرتبہ مسجد تعمیر ہوجائے، اس حصہ پر بعد میں مسجد کے علاوہ کچھ اور بنانا جائز نہیں ہے۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں مسجد کی وقف زمین میں جو حجرہ یا مہمان خانہ تعمیر کیا گیا ہے، اگر واقعتا وہ بطورِ وقف رفاہِ عامہ کے لیے بنایا گیا ہے اور کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں نہیں ہے تو یہ تعمیر درست ہے اور اسے رفاہِ عامہ کے لیے استعمال کرنا بھی جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (358/4، ط: دار الفكر)
[فرع] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية.
حاشية الشِّلْبِيِّ على تبيين الحقائق: (330/3، ط: دار الكتاب الإسلامي)
(قوله والمسجد لا يكون إلا خالصا لله تعالى إلخ) ولأن اتخاذ المسجد عرف بالشريعة وفي الشريعة لم يكن المسجد إلا وما فوقه وتحته لله ألا ترى إلى مسجد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - الذي بناه بالمدينة وإلى المسجد الحرام الذي بناه إبراهيم - صلوات الله وسلامه عليه - بمكة وإلى مسجد بيت المقدس الذي بناه داود النبي - صلوات الله وسلامه عليه - بالرخام والمرمر وجعل عليه قبة من ياقوت أحمر وجعل فوق ذلك جوهرا يضيء فراسخ تغزل بضوئها النساء في ظلمة الليالي فكل مسجد لم يكن كذلك بأن لا يكون خالصا لله لم يجز أورد أبو الليث هنا سؤالا وجوابا فقال فإن قيل أليس مسجد بيت المقدس تحته مجتمع الماء والناس ينتفعون به قيل إذا كان تحته شيء ينتفع به عامة المسلمين يجوز لأنه إذا انتفع به عامة المسلمين صار ذلك لله تعالى أيضا.
وأما الذي اتخذ بيتا لنفسه لم يكن خالصا لله تعالى فإن قيل لو جعل تحته حانوتا وجعله وقفا على المسجد قيل لا يستحب ذلك ولكنه لو جعل في الابتداء هكذا صار مسجدا وما تحته صار وقفا عليه ويجوز المسجد والوقف الذي تحته ولو أنه بنى المسجد أولا ثم أراد أن يجعل تحته حانوتا للمسجد فهو مردود باطل وينبغي أن يرد إلى حاله إلى هنا لفظ الفقيه والسرداب بكسر السين كذا في ديوان الأدب وهو بيت تحت الأرض للتبريد. اه.
الدر المختار: (357/4، ط: دار الفكر)
(وإذا جعل تحته سردابا لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها أو) جعل (فوقه بيتا وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجدا.
تقريرات الرافعي تحته:
(قول المصنف: لمصالحه) ليس بقيد بل الحكم كذالك اذا كان ينتفع به عامة المسلمين علٰي ما أفاده في غاية البيان حيث قال أورد أبو الليث هنا سؤالا وجوابا فقال فإن قيل أليس مسجد بيت المقدس تحته مجتمع الماء والناس ينتفعون به قيل إذا كان تحته شيء ينتفع به عامة المسلمين يجوز لأنه إذا انتفع به عامة المسلمين صار ذلك لله تعالى أيضا.ومنه يعلم حكم كثير من مساجد مصر التي تحتها صهاريج ونحوها...إلخ.
کذا في تبویب فتاوى دار العلوم كراتشي: رقم الفتوى: 182/15
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی