سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص نے اپنی زمین اللّٰہ تعالی کی رضا کے لیے مسجد کے لیے وقف کر دی، بعد ازاں اسی زمین پر مسجد تعمیر ہو گئی اور وہ شخص وفات پا گیا، اب مرحوم کا پڑپوتا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ چونکہ زمین میرے پڑدادا کی تھی، لہذا میں اس میں سے کچھ حصہ خاندانی قبرستان کے لیے لینا چاہتا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ کیا شرعاً اس کے لیے زمین میں سے حصہ لینا یا زبردستی قبضہ کرنا جائز ہے؟ جبکہ یہ زمین مسجد کے وقف میں داخل ہے اور مسجد کی چار دیواری کے اندر شامل ہے۔
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین مسجد کے لیے وقف کردے تو وہ زمین اس واقف کی ملکیت سے نکل کر اللّٰہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اور قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے، اس کے بعد نہ اس کی خرید وفروخت کی جاسکتی ہے، نہ اسے ہبہ (Gift) کیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی اس میں میراث جاری ہوتی ہے۔
لہٰذا مذکورہ صورت میں مرحوم کے پڑپوتے کا اس مسجد کے بعض حصہ پر قبضہ کرنا یا اس میں قبرستان بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفقه الإسلامي وأدلته:(الباب الخامس الوقف،الفصل الثالث حکم الوقف،7617/10،ط:دار الفكر)
وعند الصاحبين وبرأيهما يفتى: إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته.
الدر المختار:(کتاب الوقف،358/4،ط: سعید)
(ﻭﻟﻮ ﺧﺮﺏ ﻣﺎ ﺣﻮﻟﻪ ﻭاﺳﺘﻐﻨﻲ ﻋﻨﻪ ﻳﺒﻘﻰ ﻣﺴﺠﺪا ﻋﻨﺪ اﻹﻣﺎﻣ ﻭاﻟﺜﺎﻧﻲ) ﺃﺑﺪا ﺇﻟﻰ ﻗﻴﺎﻡ اﻟﺴﺎﻋﺔ (ﻭﺑﻪ ﻳﻔﺘﻲ) ﺣﺎﻭﻱ اﻟﻘﺪﺳﻲ.
البحر الرائق:(کتاب الوقف، فصل فی احکام المساجد، 251/5، ط: رشیدیة)
قال محمد اذا خرب ولیس له مایعمر بہ وقد استغنی الناس عنه لبناء مسجد اٰخر او لخراب القریة (الی قوله) وقال ابو یوسف هو مسجد أبداً الی قیام الساعة لا یعود میراثاً ولایجوز نقله ونقل ماله الی مسجد اٰخر سواء کانوا یصلون فیه اولا وهو الفتویٰ.
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی