سوال:
شادی کے بعد مرد پر بیوی کا حق زیادہ ہوتا ہے یا اس کے والدین اور دیگر رشتہ داروں کا حق زیادہ ہوتا ہے؟
جواب: شریعت نے انسان پر اس کے مختلف رشتے داروں کے لیے مختلف حقوق مقرر کیے ہیں، جن میں قدرت نے زبردست توازن اور اعتدال رکھا ہے، اور پھر ان رشتوں کو اسی اعتدال اور توازن کے ساتھ نبھانا ضروری قرار دیا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے والدین اور بیوی میں سے ہر ایک کو الگ الگ رتبہ اور حیثیت اس طرح دی ہے کہ ان کے باہمی حقوق کو ادا کرنے میں آپس میں کوئی ٹکراؤ یا تصادم (clash) نہیں ہوتا ہے۔ والدین کے اپنے حقوق ہیں اور بیوی کے اپنے حقوق ہیں۔ والدین کی خدمت کرنے، انہیں تکلیف سے بچانے اور ان کے لیے دعائیں کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ بیوی کی ضروریات پوری کرنے، اسے پریشانی سے بچانے اور اس کا بھی ہر طرح سے خیال رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، لہذا مرد کو چاہیے کہ وہ حسنِ اخلاق اور ذہانت سے بیوی، والدین اور دیگر تمام رشتہ داروں کے حقوق اس طرح ادا کرے کہ ان میں کسی قسم کے ٹکراؤ، تنازع یا تصادم کی کیفیت پیدا نہ ہو، اور اس بات کی حد درجہ کوشش کرے کہ کسی ایک کی وجہ سے دوسرے کا حق ضائع نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکريم: (النساء، الآية: 36)
وَاعْبُدُواْ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًا
صحيح مسلم: (رقم الحدیث: 2548، ط: دار الطباعة العامرة)
عن أبي هريرة قال: « قال رجل: يا رسول الله، من أحق الناس بحسن الصحبة؟ قال: أمك، ثم أمك، ثم أمك، ثم أبوك، ثم أدناك أدناك .
سنن الترمذي: (رقم الحديث: 3895، ط: دار الغرب الإسلامي)
عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله،» وأنا خيركم لأهلي... إلخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی