سوال:
۱) بعض کمپنیاں ایک پیسہ میں دو مہینے تک کا پیکج دیتی ہیں اور پھر کال سیٹ اپ چارجز کی مد میں 16 پیسے کاٹتی ہیں آیا اس طرح کا پیکج لینا درست ہے؟
۲) کبھی اتنا سستا پیکج ہوتا ہے کہ ایک روپے میں پورا مہینہ واٹس ایپ چلانے کی اور کبھی دو روپے میں پورا مہینہ نیٹ چلنے کی کا پیکج دیا جاتاہے۔
لیکن یہ ساری چیزیں محدود ہوتی ہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مہینے میں ایک بار ملیں تو دوبارہ نہیں ملتیں، بعض اوقات مہینہ گزرنے کے بعد دوبارہ بھی مل جاتی ہیں۔
۳) یہ بات بھی قابل غور رہے کہ آدمی بیلنس ڈلواتا ہے تو سو روپے کا بیلنس ملتا ہے اور پیکیج بالکل کم ریٹ میں ہوتا ہے پھر وہ بیلنس موبائل ہوتا ہے تو اس کا کیا کیا جائے کہیں یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آئے گا، جبکہ کمپنی کا مقصد موبائل میں بیلنس رکھنا ہو؟
جواب: ۱) چونکہ یہ پیکج کمپنی کی طرف سے صارف کو ایک جائز سہولت اور تعاون کے پیشِ نظر اصل قیمت میں کمی کرکے فراہم کیا جاتا ہے، اس لئے یہ پیکج لینا جائز ہے (چاہے محدود ہوں یا لا محدود ہوں) اور کال سیٹ اپ چارجز کی مد میں 16 پیسے کاٹنے میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔
۲) یہ صورت بھی جائز ہے۔
۳) موبائل میں جو بیلنس ظاہر ہوتا ہے وہ درحقیقت اس رقم کی رسید ہوتی ہے جو صارف کمپنی کو دے کر اس کے نیٹ ورک کے استعمال کی سہولیات حاصل کرتا ہے، اس لئے صرف یہ بیلنس موبائل میں رکھنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (156/5، ط: دار الفکر)
وفي البزازية باعه على أن يهبه من الثمن كذا لا يصح ولو على أن يحط من ثمنه كذا جاز.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (65/10، ط: دار السلاسل)
التبرع لغة : مأخوذ من برع الرجل وبرع بالضم أيضا براعة ، أي : فاق أصحابه في العلم وغيره فهو بارع ، وفعلت كذا متبرعا أي : متطوعا ، وتبرع بالأمر : فعله غير طالب عوضا .
وأما في الاصطلاح ، فلم يضع الفقهاء تعريفا للتبرع ، وإنما عرفوا أنواعه كالوصية والوقف والهبة وغيرها ، وكل تعريف لنوع من هذه الأنواع يحدد ماهيته فقط ، ومع هذا فإن معنى التبرع عند الفقهاء كما يؤخذ من تعريفهم لهذه الأنواع ، لا يخرج عن كون التبرع بذل المكلف مالا أو منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالبا .
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی