سوال:
السلام علیکم، ایک کنسلٹنٹ اپنی خدمات کسی کمپنی میں ماہانہ معاوضہ کے تحت دیتے ہیں، بعض اوقات معاوضہ میں باوجود قدرت کے کہتے ہیں کہ فلاں کام ہوجائے تو پچھلے مہینے کا کلیئر کریں گے، کنسلٹنٹ کافی تنگ ہوتے ہیں۔ ایسا رویہ کی کوئی شرعی گنجائش ہے اور اگر اس عمل کی گنجائش نہیں تو کیا وعید ہے؟ رہنمائی فرمایئے گا۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی کنسلٹنٹ کو اپنی خدمات حاصل کرنے کے لیے کسی کمپنی وغیرہ میں ماہانہ معاوضے پر مقرر کرے، اور وہ کنسلٹنٹ طے شدہ شرائط اور طریقۂ کار کے مطابق اپنا کام مکمل کرکے حوالے کر دے تو وہ شرعاً اپنی مزدوری کا مستحق ہو جاتا ہے۔
ایسی صورت میں کام مکمل ہونے کے بعد اگر بروقت ادائیگی نہ کی جائے تو یہ حقوق العباد میں کوتاہی، وعدہ خلافی اور ظلم کے زمرے میں آتا ہے اور ایسے شخص کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں نہایت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تین آدمی ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں خود ان کا فریق بنوں گا: ایک وہ شخص جس نے میرے نام کی قسم کھائی پھر اسے توڑ دیا، دوسرا وہ شخص جس نے کسی آزاد انسان کو بیچ کر اس کی قیمت کھا لی، اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی کو مزدوری پر رکھا، اس سے پورا کام لیا مگر اس کی مزدوری ادا نہ کی۔ "(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2150)
اسی طرح ایک اور موقع پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو ۔ (سنن ابن ماجہ : حدیث نمبر : 2443)
"اس حدیثِ مبارکہ میں اس امر کی صریح تاکید فرمائی گئی ہے کہ اجرت کی ادائیگی میں بلا وجہ تاخیر نہ کی جائے بلکہ کام کی تکمیل کے فوراً بعد ادا کر دی جائے، لہٰذا ہر صاحبِ اختیار پر لازم ہے کہ وہ کام مکمل ہونے پر کنسلٹنٹ یا مزدور کو بر وقت اس کی پوری اجرت ادا کرے، بلا عذرِ شرعی اس میں تاخیر کرنا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: ( 2/ 792، رقم الحدیث: 2150، ط: دار ابن كثير)
عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حرا فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره).
سنن ابن ماجه: ( ص:524، رقم الحدیث:2443، ط: دار الصديق للنشر)
عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف عرقه".
صحيح البخاري: (2/ 845، رقم الحدیث:2270، ط:دار ابن كثير)
عن همام بن منبه، أخي وهب بن منبه: أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (مطل الغني ظلم).
عمدة القاري شرح صحيح البخاري: (12/ 42، ط: دار إحياء التراث العربي)
ذكر ما يستفاد منه فيه: أن العذاب الشديد على الثلاثة المذكورين: إما الأول: فلأنه هتك حرمة اسم الله تعالى. وأما الثاني: فلأن المسلمين أكفاء في الحرية والذمة، وللمسلم على المسلم أن ينصره ولا يظلمه، وأن ينصحه ولا يغشه، وليس في الظلم أعظم ممن يستعبده أو يعرضه على ذلك، ومن باع حرا فقد منعه التصرف فيما أباح الله له وألزمه حال الذلة والصغار، فهو ذنب عظيم ينازع الله به في عباده. وأما الثالث: فهو داخل في بيع حر، لأنه استخدمه بغير عوض، وهذا عين الظلم.
فتح الباري لابن حجر: ( 4/ 418، ط: المكتبة السلفية)
«قوله: (ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره) هو في معنى من باع حرا وأكل ثمنه؛ لأنه استوفى منفعته بغير عوض وكأنه أكلها، ولأنه استخدمه بغير أجرة وكأنه استعبده.»
منحة العلام في شرح بلوغ المرام: ( 6/ 453، ط: دار ابن الجوزي)
«• الوجه الخامس: الحديث دليل على تحريم أكل أجرة العامل وعدم إعطائها إياه بعد استيفاء العمل، وهذا من كبائر الذنوب، وهذا أمر مستقبح شرعا وعقلا، فإن العامل أخوك في الإسلام، وحقوق الإخوان على الإخوان كثيرة، فكيف إذا أدى لمستأجره عملا يعود على ماله بالنماء وعلى تجارته أو صناعته بالازدهار والسعة؟!. وقد أمر الله تعالى بالوفاء بالعقود وأداء الأمانة إلى أهلها، وأجرة العامل داخلة في هذا العموم.»
* الوجه السادس: الحديث دليل على عناية الإسلام بحقوق العمال وإيصالها إليهم كاملة غير منقوصة، حيث توعد من جحد أجرة العامل بعد استيفاء عمله بهذا الوعيد العظيم، فضمن الإسلام لهم حقوقهم وحماهم من تسويف صاحب العمل أو جشعه حينما يريد جحد الأجرة؛ لأن هذه الأجرة فيها حاجة العامل وحاجة أسرته ومن يمون. والله تعالى أعلم.
المفاتيح في شرح المصابيح: ( 3/ 502، ط: دار النوادر)
قوله: "أعطوا الأجير أجره، قبل أن يجف عرقه"؛ يعني: لا يجوز تأخير أجر الأجير ولا تأخير حق ذي حق إذا بلغ وقت أخذ حقه
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: (5/ 1993، ط: دار الفكر)
(وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعطوا الأجير أجره قبل أن يجف) بفتح فكسر فتشديد (عرقه) بالرفع، يقال جف الثوب كضرب ويبس والمراد منه المبالغة في إسراع الإعطاء وترك الإمطال في الإيفاء۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی