resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ڈیوٹی کے دوران نوافل کی ادائیگی کا حکم (32344-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں، میرے انڈر میں ایک ڈیپارٹمنٹ آتا ہے، میری ڈیوٹی ٹائمنگ نو سے چھ کی ہے، اس درمیان مجھے جب بھی فارغ وقت ملتا ہے، میں اپنے کمرے میں نوافل ادا کر لیتا ہوں جو میں نے دن کی طے کی ہوئی ہیں اور اس سے میرے کام میں کوئی حرج نہیں آتا، کیونکہ اس دوران اگر کوئی کال آ جائے تو نماز کے فوراً بعد میں اسے کال بیک کر لیتا ہوں اور ہر تھوڑی دیر بعد email وغیرہ دیکھ کر اس کا جواب بھی دے دیتا ہوں تو کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟ کیا میں اس سلسلے کو جاری رکھ سکتا ہوں اور کمپنی میں نوافل ادا کر سکتا ہوں؟ براہ کرم رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ

جواب: واضح رہے کہ جاب (Job) کے اوقات کے دوران نوافل ادا کرنا شرعاً منع ہے، البتہ اگر کمپنی کی طرف سے اس کی اجازت حاصل کر لی جائے یا نوافل کی ادائیگی سے ڈیوٹی کے کام میں کوئی خلل واقع نہ ہوتا ہو تو اس صورت میں نوافل ادا کرنا جائز ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

ردّالمحتار: (کتاب الإجارة،70/6،ط:سعید)
(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة.

واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Employee & Employment