سوال:
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، مفتی صاحب! مسئلہ یہ ہے کہ میں ٹریول ایجنسی کا کام کرتا ہوں، میں عمرہ کمیٹی کے نام سے ایک کمیٹی شروع کر رہا ہوں جس کی صورت یہ ہے کہ اس کمیٹی میں دو سو ممبران ہوں گے، ہر ممبر تیس ماہ تک ہر ماہ دس ہزار روپے جمع کرے گا جو کہ تین لاکھ روپے بنتے ہیں۔ ہر ماہ قرعہ اندازی کی صورت میں دو ممبر عمرہ کرنے جائیں گے، اس طریقے سے پورے تیس ماہ میں ساٹھ ممبران کا عمرہ ادا ہوتا ہے۔ باقی ایک سو چالیس لوگ جو ہیں، اکتیسویں یا بتیسویں مہینے میں عمرہ کرنے جائیں گے، لیکن سب جائیں گے۔ اگر کوئی ممبر کسی بھی وقت کمیٹی سے نکلنا چاہے، اور اپنے لگائی ہوئی تمام رقم کا مطالبہ کرے تو بیس سے پچیس دن بعد اس کی تمام رقم واپس ادا کی جائے گی۔
اب سوال یہ ہے:
1) ہر ممبر جو دس ہزار روپے جمع کرے گا تو دو سو بندوں کے حساب سے مجموعی رقم ماہانہ بیس لاکھ بنتی ہے۔ اس بیس لاکھ میں سے ماہانہ قرعہ اندازی میں دو بندوں کو عمرہ کرانے کے بعد جو بقایا رقم بچتی ہے، کیا اس کو میں ممبران کی اجازت کے ساتھ اپنے کاروبار میں لگا سکتا ہوں؟ اور اگر اجازت کے بغیر لگایا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
2) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ تیس ماہ میں ایک بندے کی مجموعی رقم تین لاکھ روپے بنتی ہے۔ اگر عمرہ دو لاکھ پچاس ہزار میں مکمل ہوا تو جو پچاس ہزار روپے بچیں، کیا وہ میں منافع کے طور پر رکھ سکتا ہوں یا مجھے وہ پچاس ہزار روپے ممبر کو واپس کرنا ضروری ہیں؟
جواب: سوال میں عمرہ کمیٹی کی جو تفصیلات لکھی گئی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کمیٹی میں شامل ہونے والے افراد کا اس کمیٹی میں شامل ہونے کا مقصد اپنی جمع شدہ رقم لینا نہیں ہوتا، بلکہ کمیٹی ممبران قسطوں میں رقم جمع کرا کر اس کے عوض آپ سے عمرہ کی خدمات (services) حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس تفصیل کے مطابق کمیٹی ممبران کے ساتھ آپ کا معاملہ اصولی طور پر "اجارہ" کی بنیاد پر ہوسکتا ہے کہ ادا کی جانے والی اقساط کی حیثیت "پیشگی اجرت" (معاوضہ) کی ہوگی، جن کے عوض آپ عمرہ کی خدمات دیں گے، لیکن اس معاملے کے شرعی طور پر درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اجارہ کی تمام شرائط اور تفصیلات ممبران کے ساتھ طے کی جائیں کہ اقساط کی مجموعی رقم کتنی ہوگی، اس مجموعی رقم کے عوض عمرہ میں کس قسم کی خدمات دی جائیں گی، جیساکہ ٹکٹ، ویزہ، ہوٹل کی رہائش، سفری اخراجات وغیرہ کی تمام تفصیلات ممبران کو معلوم ہوں۔
اوپر ذکر کردہ تمام تفصیلات (جو سوال کے مطابق ساری تفصیلات طے نہیں کی گئی) طے کرنے کے بعد آپ کا اجارہ کا معاملہ شرعاً درست ہوگا، چنانچہ ایسی صورت میں ممبران کی اقساط سے حاصل ہونے والی رقم "اجرت" شمار ہوگی جو کہ آپ کی ملکیت ہوگی، جسے آپ ممبران کی اجازت کے بغیر استعمال کر سکتے ہیں، نیز جمع شدہ رقم میں سے بچ جانے والی رقم ممبران کو واپس کرنا شرعاً لازم نہیں ہوگا۔ تاہم اگر آپ کسی وجہ سے کسی ممبر کو عمرہ کی خدمات فراہم نہ کرسکیں تو ان کو اپنی جمع شدہ رقم واپس کرنا شرعاً ضروری ہوگا۔
واضح رہے لوگوں سے اتنی رقوم حاصل کرنے کے سلسلے میں ملکی جائز قوانین (SECP میں رجسٹریشن اور لوگوں سے رقوم لینے کی اجازت وغیرہ) کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے، تاکہ بعد میں کسی قسم کی ناپسندیدہ صورتحال اور دھوکہ دہی وغیرہ سے بچا جاسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 230، كتاب الإجارات، دار احياء التراث العربي، بيروت):
"الإجارة: عقد على المنافع بعوض" لأن الإجارة في اللغة بيع المنافع، والقياس يأبى جوازه؛ لأن المعقود عليه المنفعة وهي معدومة، وإضافة التمليك إلى ما سيوجد لا يصح إلا أنا جوزناه لحاجة الناس إليه، .... وتنعقد ساعة فساعة على حسب حدوث المنفعة، والدار أقيمت مقام المنفعة في حق إضافة العقد إليها ليرتبط الإيجاب بالقبول، ثم عمله يظهر في حق المنفعة ملكا واستحقاقا حال وجود المنفعة. "ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة، والأجرة معلومة" لما روينا، ولأن الجهالة في المعقود عليه وبدله تفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن والمثمن في البيع "
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 530، الكتاب الثاني الإجارة، ط: دار الجيل):
تلزم الأجرة بالتعجيل يعني لو سلم المستأجر الأجرة نقدا ملكها الآجر وليس للمستأجر استردادها.
بحوث في قضايا فقهية معاصرة (ص115، بيع الحقوق المجردة، ط: دار القلم):
يجوز للمؤجر أن يأخذ من المستأجر مقدارا مقطوعا من المال، يعتبر كأجرة مقدمة لسنين معلومة، وهذا بالإضافة إلى الأجرة السنوية أو الشهرية. وتجري على هذا المبلغ المأخوذ أحكام الأجرة بأسرها، فلو انفسخت الإجارة قبل أمدها المتفق عليه لسبب من الأسباب، وجب على المالك أن يرد على المستأجر مبلغا يقع مقابل المدة الباقية من الإجارة.
کذا فی تبویب الفتاویٰ جامعۃ دار العلوم کراچی (رقم الفتوی:1996/29)
واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی