سوال:
اگر پراپرٹی (shop) انسٹالمنٹ پر اس نیت سے لی گئی ہو کہ اس کو رینٹ پر دیا جائےگا اور ابھی انسٹالمنٹس چل رہی ہوں اور پراپرٹی بھی ابھی under construction ہو اور قبضہ بھی اب تک نہ ملا ہو تو اس پر زکوة ہوگی؟ اگر ہاں تو کس طرح سے حساب لگایا جائے گا؟
جواب: بطورِ تمہید واضح رہے کہ اموال زکوۃ (جن میں زکوة واجب ہوتی ہے) چار ہیں: سونا، چاندی، نقدی اور مال تجارت، مال تجارت سے مراد وہ مال ہے جو آگے فروخت کرنے کی نیت سے خریدا گیا ہو۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں مذکورہ پراپرٹی مال تجارت نہیں ہے، کیونکہ یہ فروخت کرنے کی نیت سے نہیں خریدی گئی، بلکہ کرائے پر چڑھانے کی غرض سے خریدی گئی ہے، لہذا اس پراپرٹی پر زکوۃ واجب نہیں ہے، البتہ اس سے حاصل ہونے والا کرایہ اگر زکوة کی تاریخ کو موجود ہو، اور وجوب زکوة کی دیگر شرائط بھی پائی جائیں تو اس کی زکوة واجب ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیة: (179/1، ط: دار الفکر)
الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية.
الفقه الاسلامی و ادلته: (1865/3، ط: دار الفکر)
العروض جمع عَرَض (بفتحتين): حطام الدنيا، وبسكون الراء: هي ما عدا النقدين (الدراهم الفضية والدنانير الذهبية) من الأمتعة والعقارات وأنواع الحيوان والزروع والثياب ونحو ذلك مما أعد للتجارة.
و فیه ایضا: (1948/3، ط: دار الفکر)
لا تجب الزكاة في أعيان العمائر الاستغلالية والمصانع والسفن والطائرات وما أشبهها، بل تجب في صافي غلتها عند توافر شروط النصاب، وحولان الحول.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی