سوال:
میں ہر چھٹی پر اپنے کام کی جگہ سے گھر جاتا ہوں، باقی دنوں میں جہاں ملازمت کرتا ہوں وہیں رہتا ہوں، ملازمت کی جگہ سے گھر کی مسافت 120 کلو میٹر ہے، براہ کرم آپ رہنمائی فرمائیں کہ مجھے نماز پوری پڑھنی چاہیے یا قصر نماز پڑھوں گا؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ نے مذکورہ ملازمت کی جگہ میں اپنی رہائش اور رہائش کے لئے درکار ضروری ساز وسامان رکھا ہوا ہے (چاہے یہ رہائش آپ کی ذاتی ہو، کرایہ کی ہو یا کسی اور ذریعہ سے آپ کے قبضے میں آئی ہو) اور ملازمت کے آغاز سے لے کر اب تک آپ نے اس مقام میں ایک مرتبہ بھی پندرہ دن یا اُس سے زیادہ ٹہرنے کی نیت کی ہو، اگر چہ باقاعدہ پندرہ دن ٹہرنے کی کبھی نوبت نہ آئی ہو تو یہ جگہ آپ کے لئے وطن اقامت بن گئی ہے، لہذا اب جب بھی آپ یہاں ملازمت کے سلسلہ میں آئیں گے، پوری نماز پڑھیں گے، قصر نہیں کریں گے، چاہے پندرہ دن سے کم ہی کیوں نہ ٹھہریں، لیکن اگر ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے (یعنی جائے ملازمت میں رہائش اور رہنے کا ضروری ساز وسامان نہ ہو یا کبھی پندرہ دن کی نیت سے وہاں نہ ٹھہرے ہوں) تو اس جگہ پندرہ دن سے کم رہنے کی صورت میں آپ مسافر رہیں گے اور نماز قصر پڑھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (125/2، ط: دار الفکر)
(فيقصر إن نوى) الإقامة (في أقل منه) أي في نصف شهر (أو) نوى (فيه لكن في غير صالح) أو كنحو جزيرة أو نوى فيه لكن (بموضعين مستقلين كمكة ومنى).
و فيه ایضاً: (132/2، ط: دار الفکر)
و يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه.
بدائع الصنائع: (97/1، ط: دار الكتب العلمية)
وأما بيان ما يصير المسافر به مقيما: فالمسافر يصير مقيما بوجود الإقامة، والإقامة تثبت بأربعة أشياء: أحدها: صريح نية الإقامة وهو أن ينوي الإقامة خمسة عشر يوما في مكان واحد صالح للإقامة فلا بد من أربعة أشياء: نية الإقامة ونية مدة الإقامة، واتحاد المكان، وصلاحيته للإقامة.
و فيه: (130/1، ط: دار الکتب العلمیة)
(ووطن) الإقامة: وهو أن يقصد الإنسان أن يمكث في موضع صالح للإقامة خمسة عشر.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی