سوال:
میں نے اپنی مملوکہ زمین جس کے پاس ہی مدرسہ اور مسجد ہے ان کے منتظمین کو ایک ٹیوب ویل بطور وقف لگانے کی اجازت دی، میرا ان کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا کہ منتظمین مسجد ومدرسہ میری زمین میں ٹیوب ویل لگائیں گے اور جب تک میری زمین سے پانی حاصل کریں گے اس وقت تک ٹیوب ویل لگا رہے گا اور اس کا پانی مدرسہ اور مسجد کے لئے ہوگا اور جب ٹیوب ویل کا پانی خشک ہو جائے گا تو منتظمین مسجد و مدرسہ اپنے ٹیوب ویل کے متعلقہ سامان (سمر سیبل، موٹر وغیرہ) کے مالک ہوں گے جبکہ میری زمین مجھے ملے گی۔
اب منتظمین یہ پانی فروخت کررہے ہیں اور پانی سے حاصل شدہ آمدن مسجد و مدرسے پر خرچ کررہے ہیں، ٹیوب ویل کا جو خرچہ ہوتا ہے مدرسہ و مسجد اس کے اخراجات کو برداشت کرنے سے قاصر ہے تو وہ یہ پانی بیچ کر مسجد، مدرسہ اور ٹیوب ویل کے اخراجات ادا کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہمارے علاقے میں ٹیوب ویل لگانے کا خرچہ پچیس لاکھ روپے ہے(مدرسہ نے اپنے ذاتی پیسوں سے ٹیوب ویل نصب کیا) اور ماہانہ خرچہ چالیس ہزار روپے ہے، (بجلی کا بل، ٹرانس فارم، چوکیدار وغیرہ جن کا خرچہ بھی مدرسہ ادا کرتا ہے) اگر مسجد ومدرسہ کے منتظمین پانی نہ بیچیں تو یہ ٹیوب ویل بجائے فائدے کے خسارے کا باعث ہوگا۔
اس تمہید کے بعد سوال یہ ہے کہ اپنے ذاتی ٹیوب ویل لگانے کے بعد کیا مسجد و مدرسہ اس پانی کا مالک بن جاتے ہیں اور کیا یہ پانی بیچ کر مدرسہ و مسجد اور ٹیوب ویل کے اخراجات ادا کرسکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ وقف کے لازم ہونے کے لیے تابید (یعنی وقف کی چیز کو ہمیشہ کے لیے وقف کرنا) شرط ہے، جبکہ سوال میں ذکر کردہ الفاظ "جب ٹیوب ویل کا پانی خشک ہوجائے گا تو منتظمین مسجد ومدرسہ ٹیوب ویل کے متعلقہ سامان کے مالک ہوں گے جبکہ میری زمین مجھے ملے گی" تابید کی شرط کے خلاف ہے، لہذا یہ وقف شرعاً درست نہیں ہوا۔
چونکہ مذکورہ الفاظ عاریت کے ہیں، لہذا ٹیوب ویل مسجد ومدرسہ کے منتظمین کے پاس بطور عاریت رہے گا، اس کا پانی وہ مسجد ومدرسہ کے لیے استعمال بھی کرسکتے ہیں اور ان دو مصارف پر خرچ کرنے کے لیے آگے بیچ بھی سکتے ہیں، جب تک کنویں کا مالک زمین واپس نہ لے لے یا صراحتاً بیچنے سے منع نہ کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهداية: (كتاب الوقف، 17/3، ط: دار احياء التراث العربي)
قال: "ولا يتم الوقف عند أبي حنيفة ومحمد حتى يجعل آخره بجهة لا تنقطع أبدا. وقال أبو يوسف: إذا سمى فيه جهة تنقطع جاز وصار بعدها للفقراء وإن لم يسمهم". لهما أن موجب الوقف زوال الملك بدون التمليك وأنه يتأبد كالعتق، فإذا كانت الجهة يتوهم انقطاعها لا يتوفر عليه مقتضاه، فلهذا كان التوقيت مبطلا له كالتوقيت في البيع. ولأبي يوسف... وقيل إن التأبيد شرط بالإجماع، إلا أن عند أبي يوسف لا يشترط ذكر التأبيد لأن لفظة الوقف والصدقة منبئة عنه لما بينا أنه إزالة الملك بدون التمليك كالعتق، ولهذا قال في الكتاب في بيان قوله وصار بعدها للفقراء وإن لم يسمهم، وهذا هو الصحيح، وعند محمد ذكر التأبيد شرط لأن هذا صدقة بالمنفعة أو بالغلة، وذلك قد يكون مؤقتا وقد يكون مؤبدا فمطلقه لا ينصرف إلى التأبيد فلا بد من التنصيص.
بدائع الصنائع: (كتاب العارية، 214/6، 216، ط: دار الكتب العلمية)
أما لفظ الإعارة فصريح في بابها. وأما المنحة فهي اسم للعطية التي ينتفع الإنسان بها زمانا ثم يردها على صاحبها، وهو معنى العارية، قال النبي - عليه الصلاة والسلام -: «المنحة مردودة » ومنحة الأرض زراعتها، قال النبي - عليه الصلاة والسلام-: «ازرعها أو امنحها أخاك» وكذا الإطعام المضاف إلى الأرض، هو إطعام منافعها التي تحصل منها بالزراعة من غير عوض عرفا وعادة، وهو معنى العارية.
وأما صفة الحكم فهي أن الملك الثابت للمستعير ملك غير لازم؛ لأنه ملك لا يقابله عوض، فلا يكون لازما كالملك الثابت بالهبة، فكان للمعير أن يرجع في العارية سواء أطلق العارية أو وقت لها وقتا.
الدر المختار: (كتاب العارية، 677/5، 679، ط: دار الفکر)
(وتصح بأعرتك) لأنه صريح (وأطعمتك أرضي) أي غلتها؛ لأنه صريح مجازا من إطلاق اسم المحل على الحال ... وفي الوهبانية نظم تسع مسائل لا يملك فيها تمليكا لغيره بدون إذن سواء قبض أو لا فقال: ومالك أمر لا يملكه بدون ... أمر وكيل مستعير ومؤجر
ركوبا ولبسا فيهما ومضارب .
الفتاوي الهندية: (375/4، ط: دار الفکر)
والأصل في هذه المسائل أنه إذا أتى بلفظ ينبئ عن تمليك الرقبة يكون هبة، وإذا كان منبئا عن تمليك المنفعة يكون عارية، وإذا احتمل هذا وذاك ينوى في ذلك، كذا في المستصفى شرح النافع.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی